
ہواساکت نہیں‘ سہمی ہوئی ہے
سرداربلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو اپنی بیٹی گُرپریت کو ملنے کیلئے ٹرین پر لدھیانے جا رہا تھا۔ سفر شروع ہونے کے کچھ دیر بعد تک تو بلدیو سنگھ کھڑکی سے باہر ریلوے لائن کے ساتھ سرسبز کھیتوں کو دیکھتا رہا۔ ٹرین کے ساتھ بھاگتے ہوئے درخت بلدیو سنگھ کو بچپن سے ہی بڑے دلچسپ لگتے تھے۔ بلدیوسنگھ اس دوران وہ سفر بھی یاد کر رہا تھا جو بچپن میں اس نے ابا گُربچن سنگھ کے ساتھ ٹرین پر کیے تھے۔ تب ٹرینیں آج کی نسبت بہت ہی سست رفتار ہوتی تھیں اور ہر سٹیشن پر رُکتی ہوئی جاتی تھیں۔ تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کرتے ہوئے اُڑتی ہوئی مٹی اور ریت منہ پر پڑتی تھی اور جب سفر ختم ہوتا تو تھرڈ کلاس کے سارے مسافروں کی شکلیں نہیں پہچانی جاتی تھیں۔ اب وہ اے سی ڈبے میں بیٹھا ہوا اپنے باپ کے ساتھ کیے جانے والے بچپن کے ریلوے سفر کو یاد کرتے ہوئے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اسے اس اے سی ڈبے میں بھی سفر کا وہ مزہ بہرحال نہیں آ رہا جو وہ اپنے ابا کے ساتھ تھرڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھ کر کیا کرتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بلدیوسنگھ باہر دیکھتے ہوئے بور ہو گیا اور اس نے ڈبے کے مسافروں پر نظر دوڑائی۔ اس کی سیٹ کے عین سامنے دوسری کھڑکی پر ایک نوجوان خالصہ بیٹھا ہوا تھا۔ بلدیوسنگھ نے برسبیلِ گفتگو اس نوجوان سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ لدھیانہ جا رہا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ لؤ جی! مزے ہو گئے۔ میں بھی لدھیانے جا رہا ہوں۔ گپ شپ میں یہ تین گھنٹوں کا سفر ایسے چٹکیوں میں گزر جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے سردار بلدیو سنگھ نے باقاعدہ ہاتھ سے چٹکی بھی بجائی۔پھر اس نوجوان سے پوچھا کہ وہ خیر سے لدھیانے جا رہا ہے؟ کیا کوئی نوکری کا معاملہ ہے یا وہ وہاں کاروبار کرتا ہے؟ نوجوان نے بلدیوسنگھ کو بتایا کہ وہ تلونڈی سابو میں زمیندارہ کرتا ہے اور لدھیانے اپنی بہن کو وساکھی کے تہوار پر ملنے جا رہا ہے۔........
© Roznama Dunya


