
خسارے والی کمپنی اور پانچ لاکھ تنخواہ والا منیجر
ہم جیسے فُقرے مسافروں کو دہری مصیبت کا سامنا ہے۔ایک یہ کہ روپے کی قیمت تحت الثریٰ پر پہنچ چکی ہے اور جو یورو ڈیڑھ دو سال پہلے ڈیڑھ سو روپے کا تھا اب ساڑھے تین سو روپے کا ہو چکا ہے‘ یعنی دوگنے سے بھی زیادہ مہنگا۔ دوسری مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ یورپ میں بھی مہنگائی ہو گئی ہے اور جو چیز پہلے پانچ یورو کی تھی اب وہ لگ بھگ دس یورو میں ملتی ہے۔ یعنی جو چیز ڈیڑھ سال پہلے پاکستانی روپوں میں ساڑھے سات سو روپے کی ملتی تھی اب وہ سیدھی سیدھی ساڑھے تین ہزار روپے میں پڑتی ہے۔ بے شمار ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں لینے کو دل کیا جو کبھی ہماری دسترس میں ہوتی تھیں مگر اب جیب میں ہاتھ ڈالنا تو ایک طرف رہا صرف سوچ کر ہی پسینہ آ گیا اور شو کیس سے نظریں چرا کر آگے نکل گئے۔ یہ تو مسافرت کا ٹھرک ہے جو قریہ قریہ لیے پھر رہا ہے وگرنہ اب دیار ِغیر کا سفر کرنا آسان نہیں ہے۔ مہنگائی زیادہ اور جیب میں پیسے کم ہوں تو سارا سفری بجٹ ہی برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سو پردیس میں اس مسافر کا بجٹ خاصا سکڑ چکا ہے۔
بجٹ کی اس خرابی کو دور کرنے کے دو طریقے ہیں ‘پہلا یہ کہ آمدنی بڑھائی جائے اور دوسرا یہ کہ اخراجات کم کیے جائیں۔ آمدنی بڑھانے کا تو اس مسافر کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا لہٰذا اس کا دوسرا حل نکالا کہ اخراجات کم کیے جائیں۔ اخراجات کو کم کرنے کیلئے جو اقدامات کیے تھے وہ یہ کہ لوکل ٹرانسپورٹ کا خرچہ کم سے کم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پیدل چلتا ہوں۔ ناشتہ صبح اپنے اپارٹمنٹ میں بناتا ہوں اور سوائے چھوٹے چھوٹے سووینیئرز خریدنے کے کسی چیز کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس لیے یہاں میرا معاملہ تو بہرحال کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے جبکہ وطنِ عزیز میں پیش ہونے والے بجٹ میں دونوں قسم کی خرابیاں........
© Roznama Dunya


