
استاد اور ریاست
یہ کئی عشرے پہلے کی بات ہے۔ایک سرکاری انکوائری کے سلسلے میں کوٹ ادو جانا تھا۔ملتان تک تو لوہے کا اڑن کھٹولا لے گیا۔آگے کا سفر سرکاری گاڑی پر کرنا تھا۔ گاڑی ایسی ہی تھی جیسی سرکار! وہ تو بھلا ہو اس کا کہ ملتان کے اندر ہی اس کی طبیعت مضمحل ہو گئی۔ بتایا گیا کہ دوسری گاڑی اگلی صبح مہیا کی جائے گی۔ایک ہوٹل کارُخ کیا۔ ادب کے وابستگان کا ایک آفاقی قبیلہ ہے۔ملاقات ہو نہ ہو‘ ایک دوسرے سے تعلق ضرور ہوتا ہے۔ وہ زمانہ ''فنون‘‘ اور '' اوراق‘‘ کے عروج کا تھا۔ لکھنے والے ان جریدوں کی بدولت بھی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے۔ کمرے میں مقیم ہونے کے بعد میں نے ہوٹل کے ریسیپشن سے پوچھا کہ یہاں ایک صاحب عرش صدیقی ہیں۔ کیا ان کا سراغ لگایا جا سکتا ہے؟ وہ زمانہ موبائل فون کا تھا نہیں! ریسیپشن والے نے میرے سوال کا کوئی جواب نہ دیا یا شاید ہاں کہہ کر فون بند کر دیا۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ریسیپشن والے نے کہا کہ عرش صدیقی لائن پر ہیں! یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ یونیورسٹی کے رجسٹرار تھے یا وی سی اور پورا شہر انہیں جانتا تھا۔ اپنا نام بتایا تو انہوں نے پوچھا اظہارالحق جو شاعر ہیں؟ بتایا تو انہوں نے پوچھا کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ حسنِ اتفاق تھا کہ ان کا گھر ہوٹل سے زیادہ دور نہ تھا۔ انہوں نے راستہ سمجھانے کے بعد حکم دیا کہ فوراً ان کے گھر آجاؤں! ان کے گھر پہنچ کر بیٹھنے کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ یہاں ایک ادیب انوار احمد بھی تو ہیں! اس کے بعد جو ہوا وہ صرف داستانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بلند آواز سے انوار احمد صاحب کو آواز دی۔تھوڑی دیر میں انوار احمد صاحب موجود تھے۔ معلوم نہیں عرش صاحب انوار احمد کے کرایہ دار تھے یا انوار احمد عرش........
© Roznama Dunya


