
حالات ایسے رہے تو !
آپ نے گزشتہ چند دنوں میں دیکھا کہ سارا پاکستان‘ کراچی سے لے کر کریم آباد تک‘ بند تھا۔ سڑکیں ویران‘ بسیں اور ٹرک جن کی روانی کا سلسلہ دن رات چلتا رہتا ہے‘ کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ جوان‘ بوڑھے اورعورتیں جھنڈے‘ اور ڈنڈے اٹھائے جتھوں کی صورت میں نکلے ہوئے تھے‘گویا عوامی جنگل میں شعلے بھڑک اٹھے۔ نو مئی کو لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور اور کراچی کی اکثر سڑکوں پر نعرے لگانے والوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ سوچا کچھ دوستوں سے ان کے اضلاع میں عوامی ردعمل معلوم کریں۔ معلوم ہوا کہ پنجاب کے ہر ضلع میں جلسے ہوئے‘ جلوس نکالے گئے‘ نعرے لگے اور جوش وجذبے کا اظہار کیا گیا۔ موٹرویز اکثر جگہوں پر بند تھیں۔حکومت نے کچھ چینل‘ انٹر نیٹ اور ٹیلی فون کے رابطوں کو بھی بند کررکھا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ تیرہ جماعتوں میں سے وزیراور مشیرٹی وی چینلوں پر آتے جاتے رہے کہ عوام کو بتا سکیں کہ قانون اور انصاف قائم کرنے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو دبوچنا‘ دھکے دینا اور گریبان پر ہاتھ ڈالنا کتنا ضروری تھا۔ وفاداری دکھانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے اور کہنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘ لیکن غلام گردشوں سے بات نہیں بن رہی تھی۔ اعتبار نہ رہے‘ جذبات کا دھارا کسی اور طرف بہہ رہا ہو تو سب کے جلوے اورسب کی باتیں بے اثر رہتی ہیں۔
انتخابات سے فرار اور جو اس وقت ملک کے حالات ہیں‘ انہیں سامنے رکھیں تو اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ عوامی سطح پر سیاسی تقسیم کا کیا رنگ ہے۔ اوپر سیاسی تقسیم اتنی شدید اور تقریباً اتنی گہری ہو تو عوام........
© Roznama Dunya


