
کچھ تو سیکھ لیا ہوتا!
دیکھنے اور سننے کے جدید ذرائع بند ہونے کے باوجود جو کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں‘ وہ مجھ جیسے خستہ حال اور کہنہ کو نصف صدی پہلے مشرقی پاکستان کے آخری ایام کی یاد دلاتا ہے۔ ایسے ہی مناظر‘ ایسے ہی نعرے‘ ایسی ہی لڑائی اور ایسا ہی تضاد ہمارے سامنے تھا۔ ایک طرف عوام‘ ان کا مقبول ترین رہنما شیخ مجیب الرحمن‘ جمہوریت کا نعرہ اور اکثریت کی رائے عامہ کو تسلیم کرنے کی جدوجہد تھی۔ ایک اعلان پر لوگوں کا سمندر ڈھاکہ‘ چٹاگانگ اور ہر بڑے شہر کی سڑکوں‘ پارکوں اور گلیوں میں امڈ آتا۔ اب تو سب کہتے ہیں کہ مطالبات جمہوری اور جائز تھے اور اگر اقتدار منتقل ہو جاتا تو نہ فوجی ایکشن کی ضرورت پڑتی‘ نہ بھارت کے ساتھ جنگ ہوتی اور نہ ہمیں اس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا جو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن چکی۔ ہمارے سب دوست ممالک خصوصاً چین کا اصرار تھا کہ سیاسی تصفیہ کریں‘ جس کا مطلب اکثریت کو اقتدار سونپنا تھا۔ دوسری طرف جنرل آغا محمد یحییٰ خان تھے جن کے قصوں کی رنگینی محمد شاہ رنگیلا سے کہیں بڑھ کر تھی۔ ان کے ساتھ پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ تمام آزاد اور معتبر مورخین کے مطابق بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن فیصلے تو اُن کے تھے جنہوں نے اقتدار منتقل کرنا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے پہلی تقریر کے مطابق صرف انتخابات کرانے اور اقتدار اکثریت کو منتقل کرنے کے لیے دل پر بھاری پتھر رکھ کر عنانِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لی تھی۔ اگر وہ اپنے پہلے فیصلے پر قائم رہتے تو بھٹو مرکز میں قائدِ حزب اختلاف ہوتے یا اگر چاہتے تو پنجاب یا سندھ کے وزیراعلیٰ۔ مشرقی پاکستان........
© Roznama Dunya


