
دشمن کی تلاش
ذاتی زندگی میں ہم تو دشمن بنا لیتے ہیں۔ اکثر دشمن اور ان کا خود ساختہ خوف ہمارے ذہنوں پر سوار رہتا ہے۔ ایسے لوگ خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہوئے فکر مند رہتے ہیں۔ کچھ تو ذ ہنی تنائو میں زندگیاں برباد کر ڈالتے ہیں۔ میں کوئی ماہر نفسیات تونہیں مگر ایک زمانے میں کلاسیک ماہرین کو پڑھا تھا اور اب بھی ان کے لازوال علمی خزانوں سے کچھ حصہ وصول کرتے رہتے ہیں۔ بہر کیف میری بات اس حوالے سے ایک رائے ضرور ہے‘ حتمی نہیں۔ اتنا البتہ ضرور جانتا ہوں کہ اکثر لوگ دشمنوں کا ذکر کرتے ہیں‘ نفرت لب و لہجے سے ٹپکتی ہے‘ انتقام کی آ گ سلگتی رہتی ہے اور موقع ملنے پر وار بھی کر ڈالتے ہیں۔ ایک عرصہ ہوا کہیں مدعو تھا تو ایک شخص اس بات پر نازاں تھا کہ دس آدمیوں نے اس کے خلاف مقدمات قائم کررکھے ہیں اور دس بیس کو اس نے عدالتوں میں گھسیٹا ہوا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ہمارے جاگیرداری کلچر میں جہاں مہمان نوازی کی تعریف کی جاتی ہے‘ وہاں دشمنی پالنے کے بھی چرچے ہوتے ہیں۔ درباری لوگوں کی دیہات میں کمی نہیں جو زمینداروں کی خوشامد میں ان کے مخالفوں کے قصے کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں کچھ حضرات نے تو ہتھیار بردار وردی پوش ملازمین رکھے ہوئے ہیں جو ان کے آگے پیچھے چلتے ہیں۔ کچھ دہائیاں پہلے ایسا نہیں تھا۔ رعب داب اپنی جگہ مگر کچھ کو واقعی اصلی یا خیالی دشمنوں سے خوف رہتا ہے۔ سوچتا ہوں خوف میں رہنا بھی کوئی زندگی ہے۔ قابلِ رحم زندگی ہے ایسے بھائیوں کی۔
سیانے بزرگ اور علم و حکمت کے فیض یافتہ لوگ ہر مذہب میں معاف کرنے اور معافی دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اپنا دل صاف ہوجائے تو پھر خوف اور فکر مندی کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہم........
© Roznama Dunya


