
انداز بدلے گئے
ایک صدی قبل علامہ اقبال نے زمانے کے طور طریقے بدلتے دیکھے تو خوابِ خرگوش میں مست مسلمانوں کو جگانے کے لیے بہت کچھ کہا‘ لکھا اور بہت گہری باتیں کیں۔ مسلمان جو کبھی حاکم رہے تھے‘ اس وقت محکوم تھے۔ علامہ صاحب مشرقی علوم‘ خصوصاً فارسی ادب اور فلسفہ پر عبور تو رکھتے تھے‘ مغربی علوم‘ قانون‘ فلسفہ‘ تاریخ اور سیاست سے بھی فیض یاب تھے۔اسی لیے وہ تدبر‘ فکرِ نو‘ خودی‘ اور جستجو اور جہدِ مسلسل کا درس دیتے ہیں۔ اقوام کے عروج وزوال کو سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں جہانِ نو تازہ افکار کے بغیر ناممکن ہے۔ طرزِ کہن زندہ اور آگے بڑھنے والی قوموں کا شیوہ نہیں۔ ہم نے کب اُن کی زندگی اور فلسفے سے کوئی سبق حاصل کرنا تھا۔ بس ان کے کچھ اشعار کہیں سرکاری سکولوں کی دیواروں پر لکھ دیے‘ تصویر قائداعظم کی تصویر کے ساتھ سرکاری دفاتر میں آویزاں کردی۔ کبھی کبھار اُن کا کلام ریڈیو پاکستان کے کسی چینل سے نشر کردیا جاتا ہے۔ ایک سو سرسٹھ سال پہلے سرسید احمد خاں عروج و زوال کے اسرار ورموز پا چکے تھے۔ فکرِ تازہ کی بنیاد اُنہوں نے ہی رکھی تھی۔ جدید علوم کی شمعیں جلا گئے۔ صرف مسلمان مفکرین ہی جدید علوم کی باتیں نہیں کررہے تھے‘ نوآبادیاتی دنیا کی مقامی دانش ہر جگہ مغربی استعمار‘ اس کی طاقت‘ تاریخ اور سیاسی کھیل کو سمجھتی تھی‘ اور اپنی اپنی قو م کو جگانے کی فکر میں تھی۔ ادب سے لے کر سیاسی تحریکوں اور مذہبی اجتہاد تک ہر کاوش کا مقصد روح کی غلامی اور مغرب کے غلبے کو سمجھنا اور آزادی حاصل کرنا تھا۔
مغرب کے غلبے اور استعمار کو کچھ لوگوں نے اس کی عسکری طاقت کے ظاہری حوالوں سے سمجھا۔ میرے نزدیک یہ سائنسی اور صنعتی انقلاب کا عکس تھا۔ اس کے پیچھے حیات ِنو‘ احیائے علوم اور بیداری اور روشن خیالی کی تحریکیں تھیں جو تقریباً دو سو سال تک یورپ میں چلتی........
© Roznama Dunya


