
کوئی اچھی خبر؟
ملکی حالات پر جتنا کوئی غور وفکر کرتا ہے‘ کچھ دیر بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔ سیاسی دھاگے اس قدر الجھ چکے ہیں کہ آپ جتنا بھی ہاتھ پائوں ماریں‘ نظریں گاڑ کر رکھیں‘ رنگ برنگے دھاگوں کے یہ گچھے سلجھنے کے نہیں۔ دوجانوراگر جنگل میں لڑرہے ہوں‘ ان کے سینگ پھنس جائیں تو جلد ہی ایک ہار مان کر میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ زور آزمائی طویل ہوجائے تو دوسرے جانوروں میں سے کوئی اور ٹکر مار کر امن و آتشی قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پرندوں کی لڑائی تو گھونسلوں پر قبضہ جمانے کے لیے ہم تقریباً روز ہی دیکھتے ہیں۔ چند لمحوں میں وہ ختم ہوجاتی ہے‘ا ور وہ اُڑ کر درخت کی کسی اور شاخ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں میدانِ سیاست کے نامور کھلاڑیوں نے اپنی زندگیاں سیاسی لڑائیوں کی نذر کر دی ہیں۔ اُن میں سے اکثر کی جوانیاں گزر گئیں‘ ہماری طرح عمرکے آخری حصوں کی طرف اُن کا سفر جاری ہے‘ مگر خواہشِ اقتدار کا غلبہ دل و دماغ پر اتنا حاوی ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی کے سیاسی تضادات جتنے بھی کھول کر ان کے سامنے رکھے جائیں اور پرانے انٹرویوز کی برقی پٹیاں انہیں دکھائی جائیں‘ کہیں گے کہ پہلے بھی ان کا مؤقف درست تھااور اب بھی درست ہے۔ عدالت عظمیٰ کی خود مختاری کے بارے میں ماضی کے بیانات کا جائزہ لیں یا ایک دوسرے کے خلاف زبان و کلام کا یا انتقام اور مقدمہ بازی کا ریکارڈ پیش کریں‘ ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ہے تو آج کے حالات میں اپنی سیاسی پوزیشن کو دوسروں کے مقابلے میں کیسے بہتر بنانا ہے۔ ان میں کوئی اصولی اتفاق نہیں‘ بس ایک خوف ہے کہ یہ سونامی ان کی سیاسی بستیاں بہا کر نہ لے جائے۔........
© Roznama Dunya


