
فضا سازگار نہیں
کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں لوگ بیمار پڑتے تو حکیم کسی خوش گوار فضا میں کچھ دن قیام کرنے کا مشورہ دیتے اور اکثر افراد کی طبیعت نئے ماحول میں سنبھل جاتی۔ آج کل کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر اسباب میسر ہیں تو آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں‘ اپنے لیے فضا خود ہی خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ ہمارا تعلق کسی اور قبیلے سے ہے۔ ہم باہر کی فضا پر دھیان ہی نہیں دیتے‘ اندر کی ذہنی فضا کو خوش گوار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ نصیب ہو جائے تو باہر طوفان‘ آندھیاں بھی برپا ہوں‘ کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ہر حال میں خوش رہنے کا سلیقہ اور زندگی کا اسلوب نہ اتنا آسان ہے اور نہ سب لوگ خود کو ایسے قالب میں ڈھال سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ صنعتی دور میں ارد گرد کے معروضی حالات ہماری سوچ‘ منصوبہ بندی اور طرز ِزندگی پر اتنا حاوی ہیں کہ کم ہی لوگ اپنی چھوٹی سی دنیائیں الگ سے آباد کر سکتے ہیں۔ اس نظام کی گاڑی سیاست اور معیشت کے دو آہنی پہیوں پر چلتی ہے۔ اس میں سے ایک کمزور ہو‘ پنکچر ہو جائے تو رفتار مدہم بلکہ گاڑی رک جاتی ہے۔ یہاں کہتے تو سب ہیں کہ ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے ہماری معیشت کا بیڑا غرق ہوا مگر سیاسی فضا کو بہتر کرنے کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ معیشت کی تباہی میں ہمارے حکمران طبقات‘ ان کے ذاتی مفادات‘ لوٹ مار اور بے پناہ کرپشن صرف سیاسی خاندانوں تک محدود نہیں‘ ملک کی نوکر شاہی اس مسابقت میں سب سے آگے ہے‘ اور طبقات بھی اس کارِ خیر میں شریک ہیں‘ مگر اس وقت ان کی بات جانے دیں۔
عجیب بات ہے کہ تھڑے پر بیٹھا ایک عام آدمی اور پاکستان کے گرجتے چمکتے نامور سیاست باز‘ سب کا اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ خرابی سیاسی ہے جس کی وجہ سے معیشت کا گراف زوال پذیر ہے۔ جو حالات........
© Roznama Dunya


