
تئی مارچ تے چڑھدے چن
پاکستان زندہ ہے‘ ان شاء اللہ پائندہ رہے گا لیکن پاکستان میںبسنے والے 22کروڑ سے زیادہ لوگ دوطرح کے مُردے سمجھے جار ہے ہیں۔ پاکستان کو چرا گاہ سمجھنے والے وہ جو تنخوایں‘ مرعات‘ پلاٹ‘ پٹرول‘ پنشن اور وسائل پر قابض ہیں‘ باقی لوگوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ پیدائش کے فارم سے لے کر ماچس کی ڈبیہ تک اور ڈیزل سے کر قبرستان تک ہر جگہ ٹیکس دیں۔ ساتھ ہی اپنی آنے والی نسلوں کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ‘ ورلڈ بینک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘ چین‘ سعودی عرب اور امریکہ سے لیے ہوئے قرض لازماًواپس کریں گے۔
ہماری قوم کے وسائل پر بیٹھے ہوئے قبضہ گروپ کے کسی محب کو نہ روپے کی بے قدری سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ڈیزل‘پٹرول‘ چاول‘ آٹے‘ دال‘ چینی‘ آلو‘ پیاز‘ مرچ‘ تھوم یا دودھ کی مہنگائی سے اثر پڑتا ہے۔ اس لیے کہ ڈالر مہنگا ہوتا ہے اور روپیہ سستا ہوتا ہے تو ایک ایک رات میں اُن کی دولت میں کروڑوں اربوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں آپ گنتی کر کہ دیکھ لیں کہ ہماری چادر اور چار دیواری کی حفاظت کے دعوے کرنے والے‘ ہمارے دروازے تک سستا اور فوری انصاف پہنچانے کے نعرے مارنے والے اُن کے بچے‘ بیویاں‘ داماد‘ بہنیں‘ سالے‘ سالیاں اور بہویں کتنا کتنا کما کر کتنے دن پاکستان کے اندر رہتے ہیں۔ جس کی کمائی کا دور ختم ہوتا ہے وہ باقی عمر امن و امان سے گزارنے کے لیے پہلی فلائٹ پکڑتا ہے ۔
اگلے دن اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ وکیل حضرات پاکستان کے اس طرح کے محسنوں کی لسٹ بنا رہے تھے۔ پورے جوش اور ولولے کے ساتھ وہ یہ ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے رہے کہ کون کون اور کس کس کا........
© Roznama Dunya


