
الیکشن اور آگ کا دریا
اگلے چند روز پاکستان کا مستقبل طے کردیں گے۔ سیاست کی وار گیمز کے دھماکے اسلام آباد کے چار سیکٹروں میں مسلسل سنائی دے رہے ہیں‘ بلکہ اب تو دکھائی دینے لگے۔ موسمِ اقتدار کے کچھ اندھے لیکن ہر طرف ہریالی کا پرچار کر رہے ہیں۔ پرچار بھی اس جوش و خروش سے کہ جیسے 22کروڑ لوگوں کو تو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ آپ اندازہ لگائیے‘ کیا آپ اس ایوان کو پارلیمان کہیں گے‘ جہاں 200 ارب کے ٹیکس کا بوجھ براہِ راست ملک کے شہریوں کو منتقل کیا جارہا ہو اور ان کے نمائندے بڑی ڈھٹائی سے ڈیسک بجائیں؟ 342ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی کے صرف 60لوگوں نے اس کارروائی میں حصہ لیا۔ جس کے بارے میں حبیب جالبؔ نے بہت پہلے کہا تھا:
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے‘ تم کہو
جام رِندوں کو ملنے لگے‘ تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو‘ ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
ساری دنیا میں حکمرانی کے جتنے بھی ماڈل موجود ہیں‘ وہ اپنے Vulnerable طبقات کو مہنگائی‘ بھاری ٹیکسوں‘ افراطِ زر کے ضرر سے بچانے کے لیے تین امور پر توجہ فوکس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں نظامِ سرمایہ داری کے گماشتے‘ صرف دو گُر جاننے والے گُرو گھنٹال ہیں۔ ایک گُر آئی ایم ایف کی طرف سجدہ ریز ہو کر ناک کی لکیریں نکالو‘ اپنے ملک کی سڑکیں‘ عمارتیں‘ ادارے‘ اثاثے اور کارپوریشنز کو گِروی رکھ کرمزید قرض لے لو۔ ایسا قرض جو طاقتور حلقوں یا حکمران اشرافیہ اور نہ ہی ان کے بچوں نے واپس کرنا ہے۔ مقروض قوم کے سامنے مگر قرضے کی آمدن کو من و سلویٰ کے نزول جتنی بڑی نعمت بنا کر پیش کیا جائے۔ اتنی اشتہار بازی ہو کہ اندھے کو بھی........
© Roznama Dunya


