
الیکشن روکنا کس کے مفاد میں ہے؟
بے رحمی ہے‘ کھلی بے رحمی۔ قوم‘ ملک‘ سلطنت‘ آئین اور عوام کے ساتھ۔ جب کچھ دانش بردار چہرے یہ کہنا شروع کر دیں کہ 1973ء کا آئین تو ہے! لیکن الیکشن کی کیا ضرورت ہے؟ منطق کی زبان میں وہ بلڈنگ جس کا کوئی مکین نہ ہو‘ جہاں کوئی انسان اور جیا جون رہائش پذیر نہ ہو‘ اُسے گھر کون کہہ سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ملک کا آئین ہو اور اس میں لکھے ہوئے لفظ مردہ گھوڑے (Dead Letters) بن جائیں‘ ایسے مردہ جو رونے‘ پیٹنے اور گھسیٹنے پر بھی ہلنے جلنے کے قابل نہ رہیں‘ ایسا سماج جمہوریہ کہلانا چاہے تو کہلاتا رہے لیکن راج نیتی کی ڈکشنری میں اس کے لیے جمہوریہ کے بجائے نرم ترین اصطلاح ''Banana Republic‘‘ ہی ہے۔
مجھ سے عدالتوں میں سب سے بہترین سوال جو مقدمے سے ہٹ کر پریزائیڈنگ افسر ان یا وکلا اکثر پوچھتے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے شعبہ میں Excellenceحاصل کرنے کے لیے کون سا پاپڑ بیلا جائے؟ اس سوال کا دائرہ بڑھا کر اگر آج کے قومی منظر نامے تک لے جایا جائے تو اس سے مزید کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ چند بنیادی سوال یوں ہیں:
سوال نمبر1: کیا پاکستان کو حالات کے رحم و کرم‘ ایلیٹ مافیا‘ کرپشن زدہ امیر زادوں اور دو چار پاور ہاؤسز کی رائے پر چھوڑ دیا جائے یا اس کے اصل سٹیک ہولڈرزجو 30/40نہیں بلکہ 22کروڑ عوام ہیں‘ ان کی اکثریتی آرا لی جائیں۔ یہ ملک جن کی مجبوری ہے‘ آخری پناہ گاہ ہے اور جینے کا بنیادی ذریعہ بھی۔
اس کا جواب ہر معقول آدمی یقینا نفی میں........
© Roznama Dunya


