
جن راہوں پہ ہیں
آج کل ہمارے روایتی حکمران گھرانے لاتعداد کاسہ لیسوں‘ درباریوں اور سیاسی فنکاروں کے ساتھ اقتدار کے بے مہار گھوڑوں پر سوار جن راہوں پر سرپٹ کسی منزل کے متلاشی ہیں‘ ڈر ہے کہ کہیں راستہ ہی نہ کھو جائیں۔ ہم ماضی میں ایسے کرداروں کو انہی راہوں کے مسافر دیکھ چکے ہیں‘اور ان کا انجام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے‘ مگر کوئی ماضی میں جھانک کر کچھ سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو جن حالات سے بیچارہ ملک اور بے بس قوم گزر رہی ہے اس کی نوبت ہی نہ آتی۔ نصف صدی پہلے کے مشرقی پاکستان کے حالات کی آج کی سیاسی صورتحال سے مماثلت اسی طرح ہے جس طرح ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ دوسرے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی مثل ہوتا ہے‘ روشنی گُل ہونے کا گہرا ہوتا احساس ذہن کے خلیوں میں تاریکی بھر رہا ہوتا ہے۔ لیکن شاید یہ مثال بہت موزوں نہیں‘ وہ کہیں زیادہ جبر کا زمانہ تھا‘ لکھنے اور بولنے والے اتنی تعداد میں نہیں تھے۔ مغربی پاکستان کے زیادہ تر ترقی پسند دانشور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے وابستہ تھے‘ آواز صرف صوبائی حقوق کی بات کرنے والے سیاست دانوں اور دانشوروںکی طرف سے اٹھتی تھی۔ عبدالولی خان اور بلوچ قوم پرست بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل ہو۔ انتخابات جب ہوچکے‘ نتائج آپ کے سامنے ہیں تو اصرار کیوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو راضی کریں‘ جنہوں نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی۔ اُنہیں صرف پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل تھی۔ کچھ ایسا ہی ہورہا تھا جیسا گزشتہ دس ماہ سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک اکثریتی جماعت اور اس وقت ملک کے مقبول سیاسی رہنما کو اقتدار سے محروم کرکے راستے سے ہٹانے کی تدبیر ہورہی ہے۔راستے کی یہ رکاوٹ دور ہو تو کرائے........
© Roznama Dunya


