
بحرانستان کی کہانی
کبھی کبھی جی کرتا ہے کہ ملکی حالات پر کڑھنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کی جائے اور شاعری کی دنیا میں بسیرا کیا جائے۔ جہاں تلخیٔ ایام ہو نہ سیاست کی کھینچا تانی۔ اقتدار کی جنگ ہو نہ دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے لوگوں کی آہ و بکا۔ آٹے کی لائنوں کا ذکر ہو نہ بجلی اور گیس کے بلوں سے تنگ افراد کا نوحہ۔ صرف شاعری کا رقص ہو اور رقص میں شاعری۔ کہیں لیلیٰ کے حسن کا قصہ ہو اور کہیں قیس اور فرہاد کے جنون کی داستانیں۔ کہیں محبوب کی شبنمی زلفیں ہوں اور کہیںعشق میں تڑپتا کوئی دیوانہ مگر شاعر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ گھر میں آگ لگی ہو اور آپ محبوب کے قد و قامت کے ذکر میں مگن ہوں؟ اقتدار کی جنگ نے معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہو اور آپ شہر غزالاں میں رقصاں رہیں؟ عباس تابش کے دو اشعار ملاحظہ کریں:
یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کر سکوں
آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشا نہیں رہا
دونوں طرف کے جھانکنے والوں کی خیر ہو
دیوار رہ گئی ہے دریچہ نہیں رہا
مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی خیر ہو‘ ان سب جماعتوں کی ''دور اندیشیوں‘‘ کے باعث ملک کی معیشت گھٹنوں پر آ گئی ہے۔ اب ہم عالمی اداروں اور دوست ممالک کے رحم و کرم پر ہیں۔ نیا قرضہ دستیاب ہو گیا تو پرانے قرضے کی قسطیں چلی جائیں گی ورنہ ہمارے پاس تو زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اگلے تین ماہ میں آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہو گا اور حکومت کو بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ہر طرف بحران ہی بحران ہیں۔
کس کس بات کا رونا روئیں۔ کہیں معیشت کا بحران ہے اور کہیں بجلی کا بحران۔ کہیں آٹے کا بحران ہے اور کہیں چینی کا بحران۔ کہیں ڈالر نایاب ہے اور کہیں ادویات۔ خام مال کے نو ہزار کے لگ بھگ کنٹینرز کراچی کی بندرگاہوں پر........
© Roznama Dunya


