
رو میں ہے رخشِ عمر…
مالٹوں کے وسیع وعریض باغ میں مصری‘ مراکش طرزِ تعمیر کا مہمان خانہ۔ کمرے تو تین چار ہیں مگر چاروں طرف بلند محرابوں کا چوڑا برآمدہ ہے۔ دور سے دیکھیں تو کسی خانقاہ کا گماں ہوتا ہے۔ بڑے کمرے میں لائبریری ہے جہاں ساڑھے تین سوکے قریب اسلامی فلسفے پرکتابیں دیکھیں۔ جہاں کہیں اُنہوں نے تعلیم حاصل کی‘ دنیا کی جن جن جامعات میں وہ پڑھتے‘ پڑھاتے رہے‘ کتابیں اکٹھی کرتے رہے۔ لائبریری ہو یا کوئی اور کمرہ‘ دونوں جانب لمبی روشن کھڑکیاں ہر طرف سے باغ میں کھلتی ہیں۔ کوئی دوست ملنے کے لیے آئے تو نشست لائبریری میں پڑے صوفوں پر ہوتی یا باہر برآمدے میں۔ چند گز کے فاصلے پر حویلی ہے۔ اس کی بیرونی دیواریں بھی روایتی محرابوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ باہر سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی بزرگ‘ صوفی کے دربار میں حاضری دے رہے ہیں۔ حویلی کے ایک کونے میں کئی فٹ چوڑے تنے کا جامن کا درخت ہے جو ان کے بزرگوں نے کسی زمانے میں لگایا تھا۔ جب حویلی کی تعمیر کا منصوبہ بنا تو اس سب سے پرانے درخت کو چار دیواری کے اندر رکھنا اتنا ہی اہم تھا جتنا اس حویلی کا خواب تھا۔
آخر میں ایک دن وہ آیا جب مجھے حویلی کے ایک ایک کمرے‘ برآمدوں‘ باورچی خانے‘ مراقبے اور عبادت کے لیے ایک تکونی کمرے اور اس میں رکھی ہوئی چند چیزوں کے بارے میں تفصیل سے لیکچر دیا گیا‘ جیسے کسی نئی آنے والے کو علم سیاست کا بنیادی درس دے رہے ہوں۔ حویلی کو دیکھنے کا اشتیاق فطری تھا کہ اس سے پہلے جب انہوں نے ایک سفید کاغذ پر کچھ لکیریں لگائیں اور نقشہ بنانے کی مشق کی تو میں سامنے موجود تھا۔ بلکہ یہ مشق کم از کم ہفتے میں ایک بار ضرور ہوتی۔ ساتھ والے کمرے میں میرا دفتر تھا۔ ہم دونوں میں دیہاتی پس منظر‘ زمین سے وابستگی‘ کئی سالوں تک امریکی جامعات میں تعلیم و........
© Roznama Dunya


