
انتخابات بروقت ہو سکیں گے؟
ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے۔ یہ قانونِ فطرت ہے اور دنیا کا اصول بھی۔ اچھے کام کا اچھا ردِعمل اور برے کام کا برا ردِعمل۔ ''جیسا کرو گے‘ ویسا بھرو گے‘‘ یہ محض ایک محاورہ نہیںہے بلکہ زندگی گزارنے کے لیے فطرت کا پیغام ہے۔ آپ جو بیج بوتے ہیں‘ اسی کی فصل اُگتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کیکر کا بیج بوئیں اور خواہش کریں کہ اس کے درخت بننے پر آپ کو آم کھانے کو ملیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو نظامِ حیات کی ترتیب خراب ہو جاتی اور جب ترتیب اُلٹ ہوتی ہے تو ہجوم بنتا ہے‘ قوم نہیں۔ کیا کوئی ملک ہجوم کو کسی ضابطے، قاعدے اور قانون کا پابند کر سکتا ہے؟ کیا ہجوم ہماری اجتماعیت کے لیے موافق ہو سکتا ہے؟
کسی بھی ملک کا نظام قواعد و ضوابط اور نظم کے بغیر نہیں چلتا۔ آئین و قانون اور رولز نے پورے سسٹم کو ریگولیٹ کیا ہوتا ہے۔ فردِ واحد کی حیثیت اجتماعیت کے سامنے ہیچ ہوتی ہے۔ فرد نظام کے تابع ہوتا ہے‘ نظام فرد کے زیرِ اثر نہیں ہوتا۔ آئینِ پاکستان میں لکھا ہے کہ الیکشن کے بعد منتخب ہونے والی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہو گی۔ گو کہ اسے ختم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے مگر یہ ہنگامی حالات کے لیے ہے‘ سیاسی مفادات کے لیے نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی ٹھوس وجہ کے بغیر آپ اسمبلی ختم کر دیں۔ یہ آئین کی منشا کے خلاف ہے۔ میری سوجھ بوجھ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے نہ صرف وزرائے اعلیٰ کے آئینی اختیارات پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک غلط فیصلہ کیا ہے۔ جب آپ کا مقصد بڑا ہوتا ہے تو جذباتیت کے بجائے آپ کو ہوش مندی سے کام لینا پڑتا ہے۔ سیاست سے زیادہ ملکی مفادات کو مقدم رکھنا ہوتا ہے۔ کوئی کتنا ہی بڑا پہلوان کیوں نہ ہو‘ سارے پہلوانوں سے ایک ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ اسے اپنے مقابل کو باری باری زیر کرنا پڑتا ہے۔ سیاست کی بساط کا بغور تجزیہ کیا جائے تو آپ کو تحریک انصاف........
© Roznama Dunya


