
موجیں ہی موجیں
ہمارا حکمران طبقہ ہو یا اشرافیہ‘جب سب کی خوب دیہاڑیاں لگی ہوئی ہوں‘ دونوں ہاتھوں سے دن رات کما رہے ہوں‘ زر و دولت اکٹھا کرنے‘ چھپانے اور اسے حلال دکھانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں معاونین موجود ہوں تو ملک اور غریب عوام کا وہ کیوں کر سوچیں گے۔ غالب طبقات نے جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کرنے اور اس سے کمالات دکھانے کے لیے اسے آئینی جواز دے رکھا ہے۔ جب جھنڈے والی کار‘ محافظ اور باہر سڑکوں پر نکلنے کے لیے گاڑیوں اور لوگوںکو راستے سے ہٹانے کے لیے ہارن بجاتی پولیس کی گاڑیاں ہوں تو اقتدار کے لیے رال ٹپکنا ہمارے سیاستدانوں کی سماجی فطرت کا حصہ کیوں نہ بنے۔ یہ شان و شوکت آپ کسی اور ملک میں نہیں دیکھیں گے۔ مغرب کے اکثر ممالک میں حکمران عوام میں سے ہوتے ہیں‘ ان میں گھل مل کر رہتے ہیں‘ اپنی جائز آمدنی سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے ہاں غربت‘ افلاس‘ پسماندگی اور دنیا سے ادھار اور بھیک مانگ کر گھر چلانے کے باوجود ہماری اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت کو اگر وزارت نہیں ملی تو بہت سے ایسے عہدے اُنہوں نے بنا رکھے ہیںکہ بھاری تنخواہ کے علاوہ بہت سی مراعات میسر ہو سکیں۔ گماشتوں اور مؤثر سیاسی فن کاروں کو نوازنے کے کیا طریقے ایجاد کیے گئے ہیں۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں ‘ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے‘ دوائیاں تک مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور ملک غیریقینی کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے لیکن تیرہ جماعتی اتحادی حکومت اور ان کی سیاسی ضد تحریک انصاف کو کوئی فکر نہیں۔ فکر ہے تو بس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی۔ بے شک اس دوران ملک اتنا نیچے چلا جائے جہاں سے اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کرنا کسی بھی حکومت کے لیے شاید ممکن نہ........
© Roznama Dunya


