
عمران خان سے ملاقات
امیر خسرو کے ایک شعر کا ترجمہ ملاحظہ کریں: بے قراری بے لگام ہو جائے تو بے اثر ہو جاتی ہے۔ اضطراب آخری حدوں کو چھونے لگے تو اسے قابو کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے اور اگر کسی چیز کو پانے کی خواہش آپ کی شخصیت کو دھندلا دے تو اسے عقل والوں کے ہاں ناکامی تصور کیا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے ایک عمدہ شعر نجمی نگینوی نے بھی کہہ رکھا ہے:
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مرا دل بنا دیا
دو روز قبل کچھ صحافی دوستوں کے ہمراہ میری سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ میں انہیں دو سال بعد مل رہا تھا۔ آخری بار جب انہیں ملا تھا تو وہ وزیراعظم پاکستان کے منصب پر براجمان تھے اور کسی گہری سوچ میں گم تھے مگر حالیہ ملاقات میں مجھے وہ مضطرب، بے چین اور بے قرار نظر آئے۔ غصہ ان کے لفظوں سے عیاں تھا اور تلخی لہجے سے نمایاں تھی۔ انہوں نے بیٹھتے ہی اپنے دور کی خوبیاں اور شہباز حکومت کی برائیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ کیسے باجوہ صاحب نے ان کی حکومت کو چلتا کیا اور کیسے شہباز شریف کو اقتدا ر کے محاسن پر بٹھایا گیا۔ اُن کو ہٹانے کے پیچھے کیا کہانی تھی اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا مقصد کیا تھا؟ ان کی جماعت کو کیسے توڑا گیا اور اتحادی جماعتیں کس کے کہنے پر ان کا ساتھ چھوڑ کر گئیں؟ مجھے سب سے زیادہ حیرت ان کے اندازِ گفتگو پر ہوئی۔ وہ اتنی بے تکلفی سے بات کر رہے تھے جیسے صحافیوں سے نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے ممبرز سے مخاطب ہوں۔ انہوں نے کہا: ہم اس حکومت اور طاقتور حلقوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور اس جہاد میں آپ سب نے ہمارا ساتھ دینا ہے۔ یہ بات سنتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا اور میں اپنے دیگر صحافی دوستوں کی جانب دیکھا مگر وہ سب خان صاحب کی باتیں سننے میں مگن تھے۔ میری نظریں کسی سے چار نہ ہو سکیں۔ میری دانست........
© Roznama Dunya


