
اور پنجاب بدل گیا…
پنجاب کئی حوالوں سے انجینئرڈ بدقسمتی کا شکار ہے۔ مثلاً ملک کا سب سے بڑا صوبہ جس کی آبادی 13کروڑ سے بھی زائد ہے‘ وہاں لوگ اپنی زبان‘ ثقافت‘ کلچر تو ایک طرف‘ اپنی تاریخ بھی بھولتے جارہے ہیں‘ حالانکہ زبان‘رہتَل اور کلچر کو تو ہمارا 1973ء کا آئین قبول بھی کرتا ہے اور اُسے آگے بڑھانے کا حکم بھی دیتا ہے۔
آ ئین پاکستان1973ء کے آرٹیکل 251 کے ذیلی آرٹیکل (i)میں اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔اور ساتھ ہی اسے 15سالوں میں سرکاری زبان کے طور پر نافذکرنے کا حکم بھی ملا۔ یہی آئین ذیلی آرٹیکل (iii) علاقائی زبانوں اور مختلف ثقافتوں کو پروموٹ کرنے کا بھی مدعی ہے۔
بہت عرصہ پہلے برادرم پیر ارشاد عارف صاحب اور پروفیسر اعتبار ساجد صاحب کے حوالوں سے سائوتھ پنجاب اور سینٹرل پنجاب کے دانشوروں کے کچھ ایسے اکٹھ تھے جن میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پھر الحمرامیں پنجابی جرائد اور اخبارات کے کنونشن میں مہمان کے طور پر بلایا گیا‘لیکن اب یوں لگتا ہے وہ سوتے بھی سوکھ گئے جہاں سے امرت قطرہ قطرہ زبان و ثقافت کی آبیاری کیا کرتی تھی۔
پنجاب میں لیڈری کے کارپوریٹ اور کاروباری دعویداروں نے پانچ دریا سکیڑ کر نالے بنا دیے اور River Beds پر قبضے کروا لیے۔ نالے ندیاں تو دُور کی بات رہی‘ پینے والے پانی کے تالاب اورذخیرے بھی کوڑے اور کچرے سے بھر گئے۔ پنجاب کی تاریخ بڑی بھر پور اور بہادری کے کارناموں سے لبریز ہے۔
دادِ شجاعت اور ساتھ اپنی جان دے کر نشانِ حیدر حاصل کرنے والے سورما تو 1947ء کے بعد سامنے آئے۔ اگر ہم پیچھے جائیں تو حضرت........
© Roznama Dunya


