
فکری افلاس
ہم بے شک دانشور نہ ہوں مگر دانشوری کی دنیا میں تو رہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے اس کے باسی ہیں۔ سیاسی‘ سماجی اور معاشی بحران ہوں یا اچانک کچھ مسائل پیدا ہوجائیں تو ان ممالک میں‘ جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھتے یا کہتے ہیں‘ مختلف فورمز پر متعلقہ شعبے کے بہترین ماہرین کو مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا نقطۂ نظر سیاسی تقسیم سے ماورا اپنے علم اور دانش کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے نظریاتی جھکائو کی چھاپ ان کی باتوں اور علمی مباحث میں صاف دکھائی دیتی ہے مگر وہ کسی مخصوص سیاسی ٹولے یا جماعت کی خوشامد یا کاسہ لیسی کے لیے نہیں‘ وہ آزاد رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مغرب میں لبرل اور کنزرویٹو دھارے جدید صنعتی دور کے سماج اور سیاست کو سمجھنے اور اسے تربیت دینے کے لیے تقریباً ڈھائی سو سال سے غالب ہیں۔ ہر نئے آنے والے دور میں ان کے رنگ تبدیل ہوتے رہے ہیں مگر اصل روح اور فلسفہ کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ دونوں جانب سے دانشور مسائل پر لکھتے‘ گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ وہاں کچھ جامعات میں تو روزانہ بارہ سے ایک بجے تک متوازی تین چار سیمینار ملکی اور عالمی سطح پر ہورہے ہوتے ہیں۔ ان سیمیناروں کے شرکا بھی عام لوگ نہیں ہوتے‘ نہ وہ وہاں آسکتے ہیں۔ وہاں سب اہلِ رائے ہوتے ہیں۔ ایک سلیقے سے اپنی بات کرتے اور دوسروں کی سنتے ہیں۔ علم کی نمو ایسے ہی ماحول میں ممکن ہے۔ ذاتی فہم و ادراک کوبھی جلا تنقید کی روشنی سے ملتی ہے۔ ہزاروں برس پہلے یونان میں سقراط نے ڈائیلاگ کا آغاز کیا جو مختلف صورتوں میں دورِ حاضر میں بھی ہم دیکھتے ہیں۔
یہ طویل تمہید اس لیے باندھی ہے کہ دیکھوں کہ جس سیاسی دلدل میں ہم پھنسے ہوئے ہیں‘اور اقتصادی گراوٹ کا شکار ہیں‘ کہیں کوئی مکالمہ ہورہا ہے؟ کوئی ماہرین اس پر بات........
© Roznama Dunya


