
یہاں سے آگے پاکستان کہاں جائے گا؟
ماسوائے اُن بخت آوروں کے جن کو بنا بنایا سکرپٹ ملتا ہے‘ ہائی فائی میٹنگ یا انٹرویو کے لیے‘ باقی سب کے لیے قومی مسائل پر لکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کا اصل مسئلہ اس وقت آٹاہے‘ روٹی ہے۔ پاکستان میں جس کے پاس روٹی ہو وہ گڑ‘ چٹنی‘ مولی یا پانی کے ساتھ بھی کھا سکتا ہے لیکن اگر روٹی ہی کم یاب یا نایاب ہوتے ہوتے آسمانی تارہ بن جائے تو لوگ کھائیں گے کیا؟
اگرچہ ایک خاتون وزیر نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دو روٹی کے بجائے ایک روٹی کھائیں یا بسکٹ کھا لیں‘ بندہ سلِم رہتا ہے۔ یہ سلِمنگ والی راج نیتی بھی سائفر کی کزن لگتی ہے۔ ایک بہت محترم صحافی جو آج کل ٹی وی سے بھی وابستہ ہیں‘ اگلے دن کہہ رہے تھے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اتنی گھٹن اور سنسر شپ نہیں دیکھی۔ پتا نہیں چلتا کیا کہنے کی اجازت ہے اور کیا نہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں آٹے کی تھیلی کے لیے سات بچوں کے ایک باپ نے اپنی جان لڑا کر موت کو گلے لگا لیا۔ اُسی صوبے کے حکمران 46 رکنی Image Building Team کے ساتھ سوئٹزرلینڈکے دورے کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے مرکزی حکومت میں بھی ان کی شراکت داری ہے۔ بلوچستان میں آٹے کی جدوجہد میں دھکے اور مار کھانے والے ایک مظلوم نے دل دہلا دینے والا یہ جملہ کہا کہ ''حکومت ہم سب کو مار دے‘ اگر ہم زندہ رہے تو آٹا مانگنا پڑے گا‘‘۔
75 سال میں پاکستان نے دو........
© Roznama Dunya


