
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پھولوں اور کانٹوں کو ایک جیسا سمجھنے والوں کے ہاتھ ہمیشہ زخمی رہتے ہیں۔ اتنی سی بات گزرے پچھتر برسوں میں اہلِ حَکم کو سمجھ نہیں آ سکی۔ ہمارے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ پالیسی سازوں نے سیاست اور معیشت کو کبھی الگ نہیں ہونے دیا۔ یہ روزِ اول سے ہی سائیکل کے پہیوں کی مانند ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک کے حالات بگرتے ہیں تو دوسرا خود بخود ناکارہ ہو جاتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے‘ وہ اپنی پانچ سالہ مدت کا سوچتی ہے۔ ریاست کا خیال کبھی کسی کو نہیں آیا۔ اگر ملک و ریاست ترجیح ہوتے تو معیشت اس نہج پر کبھی نہ پہنچتی۔ یہ دو‘ چار سال کا نہیں دہائیوں کا بگاڑ ہے جو آج ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ قابل اجمیری یاد آتے ہیں:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
جھوٹ کی دنیا میں جینے کی عادت ہو جائے تو سراب اور دھوکے برے نہیں لگتے مگر حقیقت کا جہان مختلف ہوتا ہے کیونکہ یہاں سچ کی کڑواہٹ کو برداشت کرنے والے کم ہی ملتے ہیں۔ تلخ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں اور ہمیں اگلے تین ماہ میں آٹھ ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہو گا؟ ہو سکتا ہے حکومت کے پاس کوئی مناسب جواب ہو مگر میرے نزدیک اس کا واحد حل آئی ایم ایف ہے۔ جب تک مفتاح اسماعیل وزیرخزانہ تھے‘ آئی ایم ایف کو بہتر انداز میں ڈیل کیا جا رہا تھا مگرجب سے اسحاق ڈار واپس آئے ہیں‘ عالمی مالیاتی ادارے سے ہمارے تعلقات ایک بار پھر خراب ہوگئے ہیں۔
قرضے کی جو قسط نومبر میں ملنا تھی‘ اس پر ابھی تک مذاکرات ہی نہیں ہو سکے۔ ڈار صاحب معیشت کو اپنے انداز میں چلانا چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف کے اپنے مطالبات ہیں۔ وزیر خزانہ کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے معاشی حالات چھ سال........
© Roznama Dunya


