
ناقابلِ حکمرانی
آپ کہیں بھی مقیم ہوں‘ اگر معاشرتی‘ ملکی اور ریاستی معاملات کے بارے میں آگاہی کا ذریعہ ہمہ وقت فعال چینلز ہوں تو یقین کر لیں کہ آپ غیرحقیقی اور افسانوی دنیا میں رہتے ہیں۔ شہری اور دیہی زندگی کی سہولتوں‘ ترقی‘ ماحول اور ریاستی قانون کی عملداری میں وہی فرق نظر آتاہے جو نوآبادیاتی نظام میں تھا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں جانے‘ کچھ دن وہاں قیام کرنے اور عام لوگوں سے ملنے اور ان کی زندگیوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ یہاں بھی بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ میں بچپن سے جن علاقوں کو دیکھتا آیا ہوں‘ ایک بار پھر دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ صدیوں پرانے جنگلات کو آبادی کا منہ زور سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔ ان کی باقیات جڑوں سے اُگنے والی جھاڑیوں کی صورت کہیں کہیں دکھائی دیتی ہیں۔ ختم ہونے والے جنگلات اتنے گھنے تھے کہ ہر گاؤں ان کے اندر ایک چھوٹی سی دنیا بسا ئے ہوئے تھا۔ ان سے سانپوں کی طرح بل کھاتے راستے نکلتے تھے جو انسانوں اور جانوروں‘ دونوں کی گزر گاہ تھے۔ صبح شام سفید اور کالے تیتروں کی آوازیں سنائی دیتیں۔ رات کو الّو کی تیز آواز بھی ہمارے ادھورے خواب کا حصہ بن جاتی۔ دن کے وقت درختوں کے جھنڈوں پر ٹائیں ٹائیں کرتے سبز طوطوںکے جھنڈ دکھائی دیتے۔ جنگل میں ہر نوع کے جانوروں کا بسیرا تھا۔ اب نہ جنگل ہیں نہ وہ پرندے اور نہ جانور۔ ماحول میں تبدیلی آہستہ آہستہ رونما ہوتی رہی تو وہ بھی آہستہ آہستہ دم توڑتے گئے۔ کوئی فعال ریاست ہوتی‘ حکمران باہمی لڑائیوں میں اپنی اور ہماری زندگیاں برباد نہ کرتے تو دھیان قدرت کی طرف سے ہمیں عطا کردہ جنگلوں کی طرف جاتا۔ عام آدمیوں میں اگر شعور کی شمعیں روشن ہوتیں تو وہ بھی کوئی فکر کرتے لیکن تعلیم کے بغیر زندگی گزارنے کا سلیقہ........
© Roznama Dunya


