
نواز شریف اور عمران خان کی ملاقات
میاں نواز شریف نے اپنے روایتی انداز میں قہقہہ لگایا اور عمران خان کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے: ماضی دلدل کی مانند ہوتا ہے‘ انسان جتنا ماضی کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اتنا شرمندہ ہوتا ہے‘ کسی کو بھی ماضی پرست نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان نے اپنے سامنے میز سے بلیک کافی کاکپ اٹھایا اور ایک گھونٹ بھرتے ہوئے گویا ہوئے: آپ درست فرما رہے ہیں‘ میں بھی ماضی کو بھلا دینا چاہتا ہوں۔ ملک کو ہماری ضرورت ہے۔ دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، معیشت کی بدحالی نے ہماری خودمختاری کو گُھن لگا دیا ہے، عوام مہنگائی سے بِلک رہے ہیں، چلتے کاروبار بند ہو رہے ہیں، روپے کی قدر ٹکے سے بھی آدھی رہ گئی ہے، قرضوں کا ناگ مزید زہریلا ہو چکا ہے، دوست ممالک ہمیں اہمیت دے رہے ہیں نہ اتحادی۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے پاؤں میں آبلے پڑے ہیں اور چاروں طرف انگارے ہیں اس کے باوجود ہم چلتے چلے جا رہے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ کیا قومیں ایسے بنتی ہیں؟ ہم نے آج بڑے فیصلے نہ کیے تو ہمارا حال سری لنکا سے بھی برا ہوگا۔
میاں نواز شریف بڑے تحمل سے یہ سب باتیں سنتے رہے اور جب خان صاحب نے اپنی بات مکمل کر لی تو قدرے توقف کے بعد بولے: اللہ نہ کرے کسی بھی ملک کو سری لنکا جیسے حالات دیکھنا پڑیں۔ تھائی لینڈ کی طرح سری لنکا میں بھی سیاحت کے بہت مواقع ہیں مگر وہاں کے سیاست دان خود غرض اور موقع پرست ہیں۔ ان کی اناؤں، تکبر اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔ ہمیں بھی ملک کے لیے اپنی اَنا کی قربانی دینا ہو گی۔ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ملک کو نقصان پہنچا تو ہمارے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا، یہ سدا خالی ہی رہیں گے۔ یہ اقتدار، یہ پروٹوکول اور یہ طاقت کا گھمنڈ‘ سب کچھ خفتگانِ........
© Roznama Dunya


