
غیر سیاسی پیش گوئیاں
جس ملک میں بچے بھی غیر سیاسی نہ ہوں‘ بڑے بھی مصلحتوں کا شکار اورکسی کو گرانے اور کسی کو آگے بڑھانے میں مگن ہوں‘ ہم کیسے غیرسیاسی پیش گوئیاں کریں گے ؟ آج نئے سال کا دوسرا دن ہے۔ دل چاہتا ہے کہ سیاست پر سکوت اختیار کیا جائے۔ جو سال گزر گیا‘ وہ سیاسی طور پر دس سالوں پر بھاری تھا۔ کیسے بندکمروں میں بیٹھ کر جادو کی چھڑی سے جوڑ توڑ کی سیاست ہوتی رہی۔ سیاست کی بات میں ہرگز نہیں چھیڑنا چاہتا‘ مگر نئے سال کی صبح گزشتہ سال کی گرانی کی وجہ سے بہت بوجھل ہے۔ سیاست میں کوئی نیا سال نہیں ہوتا‘ کوئی نیا صفحہ‘ کوئی نیا باب نہیں کھلتا‘یہ صرف اُسی صورت ممکن ہے جب کوئی انقلاب آجائے‘ نئی سیاسی قیادت ابھر کر آجاے‘ معاشرے میں ابال پیدا ہو‘ شعور کی نئی شمعیں روشن ہوں تو حالات بدل جاتے ہیں۔ انقلابات کا وقت گزر چکا۔ جو آنے تھے‘ وہ آچکے۔ جو ایسا سوچتے ہیں‘ یا جنہیں گمان ہے کہ وہ انقلاب لے آئیں گے‘ موجود ہ دور میں احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ سیاسی تبدیلی کی باتیں اب ہم کیا کریں ؟ ہماری قومی تقدیر کے فیصلے ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ جن کے ہاتھ میں ہیںاور رہے ہیں‘ ان کا گٹھ جوڑ ایسا ہے کہ کٹھ پتلیوں کے تماشے سجائے ہیں۔ ہم بھی فریب خوری کے عادی ہوچکے ہیں ا ور وہ بھی اپنے فنِ سیاست گری میں طاق ہیں۔
اپنے وطنِ عزیز کا ذکر کرنے سے پہلے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دیگر ممالک میں نیا سال بہتر ہوگا۔ بنگلہ دیش نے چند دن پہلے ڈھاکہ میں میٹرو ٹرین چلا دی۔ اب وہ اس نظام کو اس گنجان آباد شہر اور دیگر بڑے شہروں تک توسیع دے گا۔ پچاس سال پہلے ہم سے الگ ہونے والے اس ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار ہماری نسبت دوگنا ہے۔ فی کس آمدنی میں وہ ہم سے........
© Roznama Dunya


