
وہ جنگ تم بھی نہ جیتے جو ہم نے ہاری تھی
مولانا جلال الدین رومی کا قول ہے ''پھول بادل کے گرجنے سے نہیں‘ بادل کے برسنے سے اُگتے ہیں۔ اس لیے اپنی آواز کے بجائے ہمیشہ دلیل کو بلند کیجیے‘‘۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو معلوم ہی نہیں کہ سیاست دان کی دلیل اس کا کام ہوتا ہے‘ دوسروں پر الزام تراشی، بہتان طرازی یا ان کی عیب جوئی کرنا نہیں۔ زندگی اپنی خوبیوں کے سہارے جی جاتی ہے‘ مخالفین کی خامیاں ڈھونڈ کر نہیں۔ جو سیاست دان اپنے کام کو اپنے ہونے کی دلیل نہیں بناتے‘ وہ کبھی قومی لیڈر کہلانے کے قابل نہیں بن پاتے۔ تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جو لیڈر شپ کے بنیادی اصولوں سے ناآشنا تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کے اوراق میں تحلیل ہو گئے۔
ایک اور برس بیت چلا۔ یہ سال سیاسی طور پر عجیب تھا، اتنا عجیب کہ ناقابلِ بیان۔ کچھ سیاست دان گِر کر سنبھل گئے اور کچھ سنبھلنے کی کوشش میں گر گئے۔ کچھ ہار کر جیت گئے اور کچھ جیت کر ہار گئے۔ کچھ جیلوں کی سلاخوں سے نکل کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو گئے اور کچھ اقتدار کی راہ داریوں سے بھٹک کر مقدمات کی بھول بھلیوں میں پھنس گئے۔ کچھ سیاست دانوں نے غیر مقبولیت سے مقبولیت کی جانب سفر کیا اور کچھ کو مقبولیت کے خمار نے غیر مقبول کر دیا۔ عباس تابش کا ایک حسبِ حال شعر ملاحظہ کریں:
ہمیں پچھاڑ کے کیا حیثیت تمہاری تھی
وہ جنگ تم بھی نہ جیتے جو ہم نے ہاری تھی
2022ء میں سیاست دانوں کے وارے نیارے ہوئے مگر عوام پر جو بیتی وہ کہانی اشکوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اسے بیان کرنے کے لیے جو حوصلہ درکار ہے‘ وہ مجھ ناچیز میں کہاں۔ یہ سال 1970ء کے بعد مہنگا ترین سال تھا۔ بنیادی ضرورت کی اشیا میں مہنگائی کی شرح 45 فیصد سے زائد رہی۔ پٹرول سے لے کر بجلی کے بلوں تک، گیس........
© Roznama Dunya


