
آخری معرکہ
کچھ دیر خوش فہمی میں رہنے میں آخر حرج کیا ہے ؟ اگر کوئی آخری معرکہ ہوتا تو ہم انجام دیکھ چکے ہوتے۔ اس سے آگے نکل کر کچھ بن چکے ہوتے۔ فاتح اور مفتوح کا تعین ہوچکا ہوتا۔ آخر میں کوئی صلح نامہ‘ امن معاہدہ اور جنگ ختم کرنے کا اعلان کسی نئی تازہ صبح کی روشنی پھیلتے ہی ہوچکا ہوتا۔ ہم سب خوش ہوتے‘ قوم جشن منا رہی ہوتی‘ بازاروں میں رنگوں کی بارات اتر آتی۔ اکاون سال پہلے سیاسی لڑائی کا آغاز ہوا‘ جب ابھی ملک دولخت نہیں ہوا تھا۔ کچھ مورخین لڑائی کے سال پیچھے لے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابتدا اُس وقت ہوئی جب ایوب خان نے اپنی اعلیٰ سوچ کے مطابق ڈھالنے کی غرض سے ریاست اور حکومتی اداروں کو اپنے سایۂ حکمرانی میں لے لیا تھا۔ اس بارے میں آپ جو بھی چاہیں‘ تاریخ متعین کرلیں مگر اس بات پر اختلاف کرنا مشکل ہوگا کہ ملک سیاسی لڑائیوں کی زد میں تواتر سے رہا ہے۔ اور اب تو دور ِحاضر کی جنگوں میں اتنا خوفناک اضافہ ہوچکا کہ سوچ کر دل بیٹھ جاتا ہے۔ ہم درویش لوگ تو کمزور دل ہیں اس لیے جنگوں کے بارے میں فکر مند ہی نہیں ہوتے‘ اس ڈر سے کہ ہماری روح قفسِ عنصری سے بے وقت پرواز نہ کرجائے۔ یہ تو آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ اس کے اثرات دن میں کئی دفعہ محسوس بھی کررہے ہوں گے۔ میں ان چند لوگوں میں سے ہوں جو جنگ کے معاشی نتائج کا ہرگز اثر قبول نہیں کرتے کہ ہم صرف ہوااور پانی پر گزارہ کرنے کے عادی ہوئے۔ یہ مسئلہ تو سب امیر اور غریب لوگوں کا ہے جنہیں زندہ رہنے کے لوازمات کا بندوبست کرنا ہے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ سیاسی لڑائیوں سے حکمران طبقات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ایسا ہوتا تو صف بندی‘ تنائو‘........
© Roznama Dunya


