
ایک سے زیادہ پرچے
یہ ایک مکس بینچ تھا۔جسٹس ناصر اسلم زاہد صاحب کی سربراہی میں جبکہ اس میں شامل دوسرے دو جسٹس صاحبان سندھ ہائی کورٹ کے تھے۔ تنازع پیدا ہوا مرتضیٰ بھٹو کے مقدمہ قتل سے جس میں پولیس نے اپنی مرضی کی FIR کاٹ ڈالی۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی والدہ اور مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ نے اس FIR کو چیلنج کیا‘ دوسری FIR کٹوانے کا ریلیف حاصل کرنے کے لیے۔ اسی تناظر میں یہ Top Judicial کمیشن کراچی میں بٹھایا گیا۔ میں اس کمیشن میں بے نظیر بھٹو شہید کی طرف سے پیش ہوا۔
ایک بار پھر ایسا ہی تنازع ہمارے قانون و انصاف کے Canvas پر چھایا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک FIR اکیلی واردات یا ایک مضروب و مقتول نہیں بنا۔ جس طرح NRO-II کی وجہ سے بہارِ کرپٹِستان کے بادل چھائے ہوئے ہیں بالکل ویسے ہی صوبہ سندھ اور بلوچستان میں اس وقت درخواست گزار چھائے ہوئے ہیں۔ ان دنوں درج ہونے والی ہر سیاسی FIR کا مدعی ایک'' محبِ وطن شہری‘‘ ہے۔ جسے شک ہو وہ شہبازگِل‘ اعظم سواتی اور خیر سے اب تو ''جنوں سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی‘‘ گانے والے پاپ سنگر سلمان احمد کی FIR دیکھ لے۔ ہر جگہ ٹریڈ مارک ایک ہے محبِ وطن شہری۔ ایسے لگتا ہے جیسے جن جن کے خلاف پرچے درج ہو جائیں وہ گویا محبِ وطن نہیں رہتے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ محبِ وطن شہری کبھی کسی ڈرگ مافیا‘ بھتہ مافیا‘ قبضہ مافیا کے خلاف مدعی نہیں بنتے۔ یہ صرف اور صرف سیاسی حبّ الوطنی طے کرنے کے مقدمات کے مدعی ہیں۔........
© Roznama Dunya


