
کیا جواب دیتا؟
پرسوں خزاں کے سمیسٹر کی آخری دو کلاسیں پڑھائیں۔ دونوں کورسز ابتدائی نوعیت کے تھے۔ ایک تعارفِ سیاست اور دوسرا عالمی سیاست۔ ویسے تو ہر کلاس میں ہم طالب عالموں کے لیے سوالات کی گنجائش رکھتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خیالات پر تبصرہ کریں اور سوال اٹھائیں تو اضافی نمبربھی دیے جاتے ہیں مگر آخری دو کلاسوں میں صرف سوالات ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے آج کل کے طلبہ کی علمی استعداد ہمارے زمانے کے طلبہ سے کئی گنا بہتر ہے اور یقینا تعلیم کا معیار بھی۔ ویسے جو دانشور جامعات اور علمی ماحول کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں‘ ان سے گزارش ہے کہ وہ کبھی وقت ملے تو ہمارے ہاں ضرور آئیں اور دن کا کچھ حصہ نوجوانوں کے ساتھ گزاریں۔ اگلے برس جب جنوری میں دوبارہ آغاز کریں گے تو اگلی کلاس افغانستان کی جنگوں‘ اس کی ریاست اور معاشرے کے بارے میں ہے۔ کچھ لوگوںکو دعوت دوں گا کہ وہ پری کلاس میں آکر کچھ بات کریں۔ ایسا ہم اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ایک سوال جو دونوں کلاسوں میں پوچھا گیا‘ وہ دنیا اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تھا کہ آنے والے برسوں میں دنیا کا نقشہ کیا ہوگا‘ ہم کہاںکھڑے ہوں گے۔ سوال میں فکر مندی اور مایوسی کا عنصر نمایاں تھا۔ کوئی انوکھی بات نہیں‘ ایسے ہی سوال دن میں کئی بار جامعہ کی باہر کی دنیا میں بھی ہم سنتے ہیں۔ آپ کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں؟ ہم مسائل سے کبھی نکل بھی پائیں گے؟ ملک ترقی کرے گا؟ یہی لوگ جو ایک عرصے سے ملک کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں‘ کیا ملک انہی کی گرفت میں رہے گا؟ ہم کب ان سے آزادی حاصل کر پائیں گے؟ یہ سوال کوئی نئے نہیں‘ اور نہ ہی ان کا کوئی ایک جواب ہے جو ہر جگہ دیا جا سکتا ہے۔ حقائق سے کہیں زیادہ زوایۂ نگاہ کی اہمیت ہے۔ ہر دانشور اپنی سوچ‘ نظریاتی رجحان‘ مشاہدے اور تجربے کی........
© Roznama Dunya


