
بے چینی کا مقدمہ
شور سے ہم دور بھاگتے ہیں۔ فطری طور پر انسان پرسکون ماحول کی خواہش رکھتا ہے۔ جسے سکون‘ اطمینان اور قناعت کی دنیا مل جائے‘ اس سے بڑا خوش قسمت شاید ہی کوئی ہوگا۔ اگر کوئی ہو گا تواس کے توشہ خانے میں بھی اسی آسودگی کی دولت ہوگی۔ لیکن ہم میں سے بہت کم فطرت کے مناظر کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔ پرندوں میں کوا اور مرغ پو پھٹنے اور صبحِ نو کی نوید سناتے ہیں۔ ہم کمبل اوڑھے ان کی آواز کے منتظر رہتے ہیں۔ یعنی مرغانِ سحر حضرتِ انسان کو بتاتے ہیں کہ جناب اب بستر چھوڑدیں۔ دیہات میں کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب گھڑیوں کی بجائے سورج کے طلوع اور غروب سے نظم ہستی ترتیب دیا جاتا۔ ہم پرندوں کی آوازوں کے منتظررہتے۔ دبیز اندھیرے سے صبح پھوٹنے کا منظر انسان کو مبہوت کردیتا ہے۔ اپنی اپنی بولیاں بولنے والے پرندے پروں کو پھڑپھڑاتے‘ بادِ صبا کی موجوں سے اٹھکیلیاں کرتے فضا کو زندگی سے بھر دیتے ہیں۔ ان کی چہکار دن بھر کے منصوبوں کے خدوخال بیان کرتی معلوم ہوتی ہے۔ گویا داناپانی چگنے کہاں جانا ہے‘ کن دوستوں کے ساتھ رہنا ہے اور واپس کا سفر کب ہوگا؟ وہ پرندے جو اپنے کھیتوں میں ہیں اور قریب ہی درختوں پر بسیر ا کرتے ہیں‘ میں انہیں دیکھتا‘ لیکن چونکہ زیادہ تر وقت شہروں میں گزارنا پڑرہا ہے‘ یہاں انسانوں کی بے ہنگم اور بے ترتیب زندگی کی طرح پرندوں کو بھی مختلف سمتوں میں اُڑان بھرتے دیکھتاہوں۔ زیر آسماں محوِ پرواز‘ مگر منزلوں کا کچھ اتا پتا نہیں۔ شام ہوتے ہی دیہات ہوںیا شہر‘ پرندے واپس اپنے گھونسلوں میںآتے ہیں۔ آج کل اکثر ہماری طرح بے گھر ہیں۔ درختوں کی ٹہنیوں اور عمارتوں کی منڈیروں پر سرد راتیں گزارتے ہیں۔ تاریکی چھاتے ہی ماحول میں سکون اتر آتاہے۔ ہم انسان بھی ایسے ہی پرندے........
© Roznama Dunya


