
زمینی مخلوق کی باتیں
اپنی خود اُگائی سبزی کے کھیت کی دیکھ بھال میں کبھی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوا‘ مگر گزشتہ ماہ کے شروع میں برطانیہ کا سفر اور وہاں دوہفتوں کے قیام کے دوران فکر لاحق تھی کہ کہیں پانی کی کمی واقع نہ ہو جائے۔ سبزی کی جڑیں تو زیادہ تر تین‘ چار انچ زیر زمین گہرائی سے زیادہ تک نہیں جاتیں۔ وقت پر پانی نہ ملے اور جڑی بوٹیاں نہ نکالی جائیں تو پودے اپنا رنگ نہیں جماتے۔ لاہور میں قدم دھرتے ہی اتوار کو اپنی محدود زراعت پر کچھ گھنٹے کام کرنے کی منصوبہ بندی کرلی۔ صاف اور نکھرے نکھرے دن‘ شفاف دھوپ اور نیم خنک موسم میں سبزی عجب سی بہار دکھارہی تھی۔ انتظامیہ نے ہماری درخواست پر اساتذہ کو فارم الاٹ کر رکھے ہیں۔ کئی سال پہلے ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ ہمیں اپنی سبزی اگانے کے لیے خالی زمین پر کاشت کاری کی اجازت دی جائے‘ اور ساتھ ہی یہ کہ کچھ ملازمین بھرتی کیے جائیں جو بغیر کھاد اور کرم کش ادویات کے سبزی لگائیں اور جامعہ میں کام کرنے والوں کو فروخت کریں؛ تاہم اس بابت سخت اختلاف رہا کیونکہ یہ تجویز اس درویش کی طرف سے تھی یا پھر ہمارے گروہی سردار‘ پروفیسر مشتاق احمد خان کی طرف سے۔ ہم چونکہ بحث سے گریز کرتے ہیں‘ اس لیے اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے سردار زیادہ متحرک ہیں۔ دیگر کو ترغیب دینے کے علاوہ خود بھی بڑھ چڑھ کر سبزی کاشت کرتے ہیں۔ دس بارہ کے قریب ایسے سبزی کے فارم ہیں۔ ہماری اور دوسروں کی کاشت کاری میں فرق یہ ہے کہ وہ اجرت پر مزدور حاصل کرکے کاشت کرتے ہیں جبکہ ہم اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ ہماری اچھی اور بری عادتیں رہی ہیں اور بعض میں تو ابھی تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ان میں سے ایک جہاں بھی جگہ........
© Roznama Dunya


