
بھارت کی تاریخ دوبارہ لکھنے کی ضرورت؟
ہندوستان کے مہان یودھا لاچت برفکن کے 400 ویں یومِ پیدائش پر خطاب کرتے ہوئے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھارتیہ تاریخ کو پھر سے لکھا جانا چاہئے۔ یہی بات کچھ دنوں پہلے بھارت کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی تناظر میں مورخین کو اُن 30 خاندانوں پر تحقیق کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں 150 برسوں سے زیادہ وقت تک حکومت کی۔ مورخین کو ان 300 نامور شخصیات کے بارے میں بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ بھاجپا حکومت کے ان بیانات کا مطلب یہ نکالا جا رہا ہے کہ ابھی تک بھارت کی جو قدیم، قرونِ وسطیٰ اور جدیدتاریخ لکھی گئی ہے، اسے رد کر کے سنگھی اور جَن سنگھی رنگ میں رَنگ کر ساری تاریخ کو نئے طریقے سے پیش کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ بھارت کی تاریخ کو بھی دو خانوں میں تقسیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک کے نزدیک گلاس آدھا خالی ہے اور دوسرے کے نزدیک آدھا بھرا ہوا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر مؤرخ تاریخ کے واقعات کو اپنے چشمے ہی سے دیکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے اپنے رحجانات، تعصبات اور تجزیے یقینی طور پر اس کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک تاریخ دان مغل بادشاہ اکبر کو عظیم شہنشاہ بتاتا ہے تو دوسرا اس کی زیادتیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ ایک مصنف اندرا گاندھی کو بھارت کے وزرائے اعظم میں سب سے بہتر بتاتا ہے تو دوسرا انہیں سب سے زیادہ تانا شاہ یعنی ڈکٹیٹر حکمران ثابت کرتا ہے۔ اس طرح کے دونوں پہلوؤں میں کچھ نہ کچھ سچائی اور کچھ نہ کچھ مبالغہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ تحقیق کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان تفصیلات سے کیا نتیجہ نکالتا ہے۔ بھارت میں تاریخ نویسی پر سوویت یونین، ماؤ وادی چین اور کاسترو کے کیوبا کی طرح کبھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ یہ........
© Roznama Dunya


