
پروپیگنڈا
ستمبر 1965ء میں لاہور اور سیالکوٹ پر جب بھارت نے اپنی بری اور فضائی افواج کی واضح برتری کے ساتھ یلغار کی تو اس وقت پاکستان میں صرف ایک قوم آباد تھی جس نے یکجان ہو کر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ اس وقت سب ایک تھے۔ اکھنور کی طرف بڑھتے ہوئے بری فوج کے میجر جنرل اختر ملک ہوں یا فضائیہ کے سکواڈرن لیڈر سیسل چودھری، چونڈہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ میں دشمن کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دینے والے بریگیڈیئر عبدالعلی ملک ہوں یا دوارکا تباہ کرنے والے پاک بحریہ کے کمانڈر ایس ایم انور‘ سب اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے شہادت کے رتبے سے ہمکنار ہونے کیلئے بے چین تھے۔ مقصد سب کا ایک ہی تھا‘ عظمتِ پاکستان اور دفاعِ پاکستان۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو سکا جب قوم اور دفاعی ادارے ہم آواز اور ہم رکاب تھے۔ کوئی بھی سپاہی اس وقت تک جانباز نہیں بن سکتا جب تک اس کی قوم‘ جس میں سے چن کر اسے پہلے بیرک اور پھر وہاں سے کسی محاذ پر لڑنے کیلئے بھیجا جاتا ہے‘ اس کے ساتھ نہ ہو۔ جب اسے یہ یقین ہو کہ اس کی قوم اس کے ماں باپ‘ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کی غمگسار ہو گی اس وقت وہ ایسی ہمت‘ جرأت اور جذبۂ شہادت کے ساتھ دشمن کی صفوں میں گھس کر حملہ آور ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت‘ کوئی نظریہ کسی فرد کو اس طرح مائل نہیں کر سکتے۔ بھارت کی حربی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بھارت بیشتر محاذوں پر محض اس وجہ سے پسپا ہو گیا کہ اس کے فوجی کسی خاص حکم یا مجبوری کے تحت لڑتے ہیں محض نیم دلی سے۔ یخ بستہ چوکیوں اور تپتے ریگ زاروں میں ڈیوٹی دینے والے سپاہی کو اگر یہ یقین ہو کہ اس کی قوم اس کا دست و بازو بننے کیلئے اس کے ساتھ کھڑی ہو گی اور کئی ہاتھ دعا اور محبت و ایثار کیلئے اس کے اور اس کے خاندان کے لیے بلند ہوں گے تو ایسے سپاہی کا جذبہ پہاڑوں سے بھی ٹکرا جاتا ہے۔
مشرقی پاکستان میں جو کچھ........
© Roznama Dunya


