
اگر بچہ ڈاکٹر نہ بن سکے!
ًیوں تو اس ملک میں کوئی بھی شعبہ خرابی سے نہیں بچا‘ لیکن اب تو میڈیکل کا شعبہ بھی صاف لفظوں میں ''رُل‘‘ کر رہ گیا ہے۔ جو چارم آج سے پندرہ‘ بیس برس قبل ڈاکٹر بننے میں تھا‘ وہ اب نہیں رہا۔ اب ڈاکٹر بن کر اس معاشرے میں رہنا سراسر گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے کیونکہ جتنے ڈاکٹرز ہر سال تیار ہو رہے ہیں اتنی نوکریاں نہیں ہیں اور جن کو قسمت سے نوکری مل جاتی ہے‘ ان کی تنخواہ سے اگر بمشکل گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل پورا ہو جائے تو غنیمت ہے۔ اب تو ڈاکٹروہی بن رہا ہے جس نے حقیقتاً مخلوقِ خدا کی خدمت کرنی ہے اور بدلے میں سوائے دعائوں کے اسے کچھ اور نہیں چاہیے یا پھر وہ جو ملک سے باہر چلا جائے گا اوروہاں اپنا مستقبل محفوظ بنا لے گا۔
آج سے دس‘ بیس برس قبل تک معاملات اتنے نہ بگڑے تھے لیکن جب سے مارکیٹ ڈیمانڈ سے زیادہ ڈاکٹرز مارکیٹ میں آ رہے ہیں‘ پاکستان میں بے روزگاروں کی فہرست میں ڈاکٹرز بھی شامل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً کرغزستان‘ چین وغیرہ سے بھی ہر سال سات سے آٹھ ہزار طلبہ گریجوایٹ ہوتے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر تقریباً بیس ہزار ڈاکٹرز ہر سال ملک میں تیار ہوتے ہیں لیکن ان میں سے سرکاری نوکری بمشکل ہزار‘ پندرہ سو ہی کو مل پاتی ہے۔ اگر چند سو ایڈہاک سیٹیں آ جائیں تو اپلائی کرنے والوں کی تعداد پندرہ‘ بیس ہزار ہوتی ہے۔ سبھی ڈاکٹرز پینتالیس ہزار روپے کی عارضی نوکری کیلئے گھنٹوں قطاروں میں لگتے ہیں۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد کے ایک سرکاری ہسپتال کی ایک تصویر بہت وائرل ہوئی جہاں پی پی ایس سی کی ایڈہاک سیٹوں پر بھرتی کے لیے ڈاکٹروں کے انٹرویو ہو رہے تھے اور باہر پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اوسطاً لگ بھگ........
© Roznama Dunya


