
سود و زیاں
ہم نے شیر چڑیا گھر کے بند پنجروں یا سرکس میں لاغر اور قریب المرگ دیکھے ہیں۔ کبھی کھلونوں کی صورت میں‘ کہیں کوئی شیر والی جماعت کا جلسہ‘جلوس ہوتو پرانے وفاداروں کے ہاتھوںمیں دکھائی دیتے ہیں۔ شیر ہماری زبان اور ثقافت بلکہ دنیا کے ہر ملک میں طاقت جرأت اور بے خوفی کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے نہ شیر پسند ہیں اور نہ جنگلوں میں ان کی ماردھاڑ‘ چیرپھاڑ‘ مگر وہاں تو قدرت کا نظام ہی ایسا ہے کہ بقا کے لیے ہر چرند پرند شکار کرکے گزراوقات کرتا ہے۔ اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں شیر کی مثال عام آدمی سے لے کر بڑے سیاسی کھلاڑیوں میں اس لیے مقبول ہے کہ فرد کی شخصیت‘ استعداد اور صلاحیت کو پرکھنے کا معیار اس کی طاقت اور جرأت ہے۔ انسان میں اور بھی خصائل ہیں‘ جن میں سب سے افضل علم ہے۔ معاملہ فہمی‘ دانش‘ حکمت اور تدبر تو ایسے اوصاف ہیں کہ اگر نصیبوں میں لکھ دیے جائیں تو کسی اور چیز کی خواہش نہیں رہے گی۔ ہر جگہ صدیوں سے ایسے لوگ سب معاشروں میں جنم لیتے رہے ہیں‘ مگر کون آگے نکل کر اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔ وہ تو مروجہ رجحانات‘ اخلاقی معیار اور عام لوگوں کے رویے متعین کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ سیاست کی تاریخ اور اس کے ہر دور‘ ہر جگہ جومظاہر دیکھتے ہیں‘ سیاست کے میدان کے کھلاڑی مقامی کلچر کے مطابق زبان اور کلام اور بیانیے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست اور کلچر کا گہرا تعلق ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ سیاست کو سماجی انصاف‘ صنعتی ترقی‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے استعمال کیا جائے تو ثقافت بھی اپنا رنگ ڈھنگ بدل لیتی ہے۔ معاشرتی اور معاشی ترقی دنیا میں تو اچھی سیاست کے سبب ہے۔ یہاں بھی ایک دن ایسا ہی ہوگا مگر شاید جب ہم نہ ہوں گے۔موجودہ آثار بہت حوصلہ........
© Roznama Dunya


