
لندن پلان اور لہور منصوبہ
اس ہفتے دو دن لاہور گزارنے کا موقع ملا۔ عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ کچھ اور دوستوں سے بھی۔ ایڈووکیٹ الیاس خان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی جہاں اصلی والے لیفٹ کے وہ کامریڈ جو اب خال خال ملتے ہیں‘ اُن سے بھی نشست رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کے اگلے مرحلے کی تفصیلات طے کرنے میں شریک ہوا۔ ایک دن مزید رکنے کو دل چاہ رہا تھا لیکن اسد عمر وغیرہ کے خلاف دہشت گردی کے نئی FIRمیں ضمانت قبل ازِ گرفتاری کے لیے اسلام آباد واپس آنا پڑا۔ شہرِاقتدار میں مرکزِ اقتدار کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈول رہا ہے۔ مرزا غالبؔ کے بقول:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
مارگلہ کی خون جما دینے والی ہوائیں ایک طرف‘ اب تو Silver Oaksکے اونچے درختوں کی سائیں سائیں بھی سازشی کہانیاں سُنا رہی ہے۔ اِن کہانیوں کو آگے بڑھانے کے لیے قصہ خوانی کے ماہرین نوحہ خوانی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ نجانے کیوں؟ مگر مجھے 12 اکتوبر 1999ء کا پچھلا پہر یاد آرہا ہے۔ 11 اکتوبرکو شہید بی بی کے مقدمے کی تاریخ تھی۔ تب احتساب عدالت میں ٹرائل کے لیے نواز شریف کے قانون نے ہائی کورٹ کے دو جج بٹھا چھوڑے تھے۔ مشہورِ زمانہ جسٹس ملک اور جسٹس کاظمی صاحب کا بینچ تھا۔ دوسرے بینچ میں جسٹس عباسی اور جسٹس چودھری(مرحوم) تھے۔ ہاؤس آف شریف کے ''احتساب الرحمن‘‘ نے نئے کئی ہزار Pagesکے ریفرنس بنائے۔........
© Roznama Dunya


