
سایوں کی روایت
سیاسی معاملات آئین کے مطابق ہوں‘ ریاستی ادارے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہیں‘ قانون کی حکمرانی ہو اور اختیارات وہ استعمال کریں جن کا حق ہو تو حالات وہ کبھی نہیں بنتے جو ہم دیکھ چکے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصے تک ایک معمول کی تعیناتی موضوع بحث رہی۔ دنیا کے اُن ممالک میں جہاں سیاست قاعدے اور قانون اور مضبوط روایات کی بنیاد پر چلتی ہے‘ یہ عام سی بات ہے۔ سیاسی حلقوں‘ عوام یا میڈیا میں کسی کودلچسپی نہیں ہوتی۔ صدر یا وزیراعظم‘ جس کا یہ اختیار ہو‘ وہ طے شدہ اصولوں کے مطابق جسے مناسب سمجھتا ہے‘ فوجی اور دیگر اداروں کا سربراہ بنا دیتا ہے۔ یہ ایک اختیار بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اگر کوئی عہدہ سنبھالنے کے بعد پیشہ ورانہ اعتبار سے معیار کے مطابق نہ نکلے‘ شکایات پیدا ہو جائیں یا حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی بو آئے تو استعفیٰ طلب کیا جاتا ہے اور یہ ایک معمولی سی خبر بنتی ہے۔ یہ اُن ممالک کی بات ہے جہاں آئین اور اس کے مطابق اقتدار میں آنے والی منتخب حکومت کی بالا دستی قائم ہے۔ امریکی سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی طرف سے‘ صدر کی طرف سے کسی بھی عہدے کے لیے نامزد امیدوار کی جانچ پڑتال‘ سامنے بلاکر سخت سوال و جواب اور اُس کے ماضی کو کھنگالنے کی روایت ہے۔ سب اعلیٰ عہدوں کے لیے صدر کا اختیار سینیٹ کی منظوری کا پابند ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے اختیارات پر ایسی کوئی قدغن نہیں۔ کابینہ سے مشورہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ البتہ ہمارے آئین میں کچھ اور لکھ دیا گیا ہے۔ اختیار تو وزیراعظم کا ہے لیکن صدر پاکستان اس پر آخری مہر لگانے کی طاقت رکھتا ہے۔ پارلیمانی روایت کے مطابق یہ رسمی اختیار ہے اور چونکہ وزیراعظم پارلیمان میں اکثریت رکھتا ہے اور حکومت کا سربراہ ہے‘ صدر اس کی سفارش کے مطابق فیصلہ کرتا ہے مگر........
© Roznama Dunya


