
’’ اپُن ہی بھگوان ہے؟‘‘
مولانا روم کا قول ہے ''علم، آگہی اور شعور بڑھتا ہے تو انسان خاموش ہو جاتا ہے اور وہ کائنات میں چھپے رازوں کی تلاش کی جستجو کرتا ہے‘‘۔ ہمارا المیہ ملاحظہ کریں‘ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں شعور اور اخلاقیات ایک دوسرے کی ضد بن چکے ہیں۔ جیسے جیسے شعور کے دعوے دار بڑھ رہے ہیں‘ اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے۔ کیا ہمیں ادراک ہے کہ شعور ہوتا کیا ہے؟ علم کسے کہتے ہیں اور آگہی کس شے کا نا م ہے؟
اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا شعور ہے یا مخالف نظریات اور افراد کو گالی دینا شعور ہے؟ اچھے اور برے میں تمیز کا نام شعور ہے یا پروپیگنڈے کی فراوانی کو شعور کا نام دیا جاتا ہے؟ سچ اور جھوٹ کی پہچان شعور کہلاتی ہے یا کسی ایک کے ''سچ‘‘ کو سچ مان کر اندھی تقلیدکرنے کو شعور کہا جاتا ہے؟ اس کا فیصلہ کیسے ہو گا کہ ایک شخص جسے شعور کہہ رہا ہے وہ شعور ہے بھی یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز آپ کے لیے اہم ہو مگر کیا ضروری ہے کہ وہی چیز دوسرے کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہو؟ یہ بھی ممکن ہے کہ آگاہی کی جس منزل پر آپ آج پہنچے ہیں‘ دوسرا وہ منزل پانچ؍ سات سال قبل ہی عبور کر چکا ہو۔ کون جانے سیاسی بیانیے ہمیں باشعور بنا رہے ہیں یا بے نقاب کر رہے ہیں؟ شعور تو دانائی، ادب و آداب، عقل مندی، دانش، ہوش اور فہم و فراست کو بروئے کار لانے کا نام ہے‘ مگر نجانے کیوں ہمارا '''شعور‘‘ ہمیں اخلاقی پستی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ گالی دینا، دشنام طرازی اور آدمیت کی تذلیل کرنا اب جیسے ہمارے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔
وہ آگہی کے سمندر کہاں ہیں جن کے لیے
تمام عمر یہ پیاسے سفر میں رہتے ہیں
کیا آپ کبھی ایسے شخص سے ملے ہیں جو اپنا ہی دشمن ہو؟ جسے اپنا گھر، اہل و عیال اور رشتہ دار برے لگتے ہوں۔ جو جس شاخ پر بیٹھا ہو‘ اسی پر کلہاڑی سے وار کرتا ہو اور جس تھالی میں کھاتا ہو‘ اسی میں چھید کرنا اس کی فطرت ہو۔ یہ مختلف قسم کی........
© Roznama Dunya


