
علمی وراثت کے خزانے
حیرانی کی بات نہیں کہ جن قوموں نے صنعتی ترقی میں عروج حاصل کیا‘ وہاں تعلیم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند صدیاں پہلے مغرب نے سرکاری سرپرستی میں یکساں اور معیاری تعلیم کو اپنے ریاستی مقاصد میں سب سے مقدم رکھا۔ برطانیہ اور امریکہ میں ابتدائی سکولوں سے لے کر جامعات تک کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہر ادارہ اپنے ماضی اور زندہ روایات پر بجا طور پر فخر کرتا ہے۔ مجھے مغرب کے کتب خانوں نے بہت متاثر کیا ہے۔ جب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چار عشرے قبل طالب علم تھا تو گرمیوںکی چھٹیوں میں لائبریری میں تین ماہ کی نوکری مل جاتی تھی۔ لاکھوں کتابوں اور سرکاری دستاویزات کے اس عظیم علمی خزانے میں میرا کام گم شدہ کتابوں کو تلاش کرنا ہوتا تھا۔ اگر کوئی کتاب اپنے نمبر کی جگہ پر نہ ہوتی تو اسے تلاش کرکے اس کی جگہ پر دوبارہ رکھنا ہوتا تھا۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک سیکشن کی کتاب کسی دوسرے سیکشن میں ملتی۔ میں نے پہلے ہی سال اتنی مہارت حاصل کرلی کہ کھوجی بن گیا تھا۔ لائبریری کو اگر کوئی کتاب جلد تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو اس درویش کی خدمات طلب کی جاتیں۔ تیسرے سال میں انفارمیشن ڈیسک پر ہر آنے والے کی رہنمائی کرتا رہا۔ اس دوران اپنے ملک‘ تاریخ اور ثقافت کے بارے میں ایسی کتابیں بھی دیکھیں جن کے بارے میں کبھی سنا تک نہ تھا۔ پنجابی انگریزی لغت‘ جو انیسویں صدی کے آخرمیں شائع ہوئی تھی‘ وہیں دیکھی۔ یہ اصل میں آج کے لسانی نام کے اعتبار سے سرائیکی انگریزی لغت ہے جس کی میں دو کاپیاں بنا کر لایا تھا۔ ایک لوک روثہ اسلام آباد کو دی اور دوسری کسی دوست کو مستعار‘ جو اب ہمیشہ کے لیے گم ہو چکی ہے۔
اس مضمون کا مقصد علمی ثقافت اور اس کے ورثے کو کتب خانوں کی صورت محفوظ کرنے اور عام لوگوں کی ان تک رسائی آسان بنانے کی مغربی روایت کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ اس سے........
© Roznama Dunya


