
لانگ مارچ نہیں‘ کابینہ پر توجہ دیں
غضب و غصہ خالقِ دو جہاں کو سزاوار ہے باوجودیکہ اس نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے‘ یہ خداوند کریم ہی کی صفت ہے۔ یہ وصف جب انسانوں میں منتقل ہوا تو خوبی بھی کہلایا اور بہت بڑی خامی بھی۔ ایسا نہیں کہ انسان کو غصہ نہیں آتا۔ جو لوگ غصے کا اظہار نہیں کرتے‘ وہ یقینا منافقت سے کام لیتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت کے برعکس ہے۔ غصہ ہر انسان کو آتا ہے مگر ضبط بھی کسی چیز کا نام ہے؛ البتہ جب غصہ اور ضد ہم قدم ہو جائیں تو عقل کا پھول مرجھا جاتا ہے۔ اناؤں کی حکمرانی ہوتی ہے اور مایوسی کے بادل گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ کاش! اتنی سی بات ہماری سیاسی اشرافیہ سمجھ سکے۔ کاش! انہیں اندازہ ہو کہ ذاتی زندگی میں اناؤں کا اسیر ہونا اور بات ہے اور اجتماعیت کا تقاضا بالکل مختلف ہوتا ہے۔ آپ اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کے لیے شخصی آزادی کو کیسے سلب کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کو عوام کے آئینی حقوق کا علم نہیں؟
آئین کا آرٹیکل پندرہ کہتا ہے: ''ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفادِ عامہ کے پیشِ نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع، پاکستان میں داخل ہونے اور اس کے ہر حصے میں آزادنہ نقل و حرکت کرنے اور اس کے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق حاصل ہے‘‘۔ گزرے دو ہفتوں سے آئین کا مذکورہ آرٹیکل عضو معطل بنا ہوا ہے اور پنجاب حکومت کرسی کے خمار سے نہیں نکل رہی۔ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عمران خان سانحہ وزیر آباد کے بعد بھی احتجاجی موڈ سے باہر نہیں آ رہے۔ان کے ورکرز روزانہ لاہور اور راولپنڈی کی سڑکیں بلاک کرتے ہیں اور صوبائی پولیس انہیں روکنے کے بجائے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ موٹر ویز اور جی ٹی روڈ کو بھی بار بار بند کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر صاحب شاہراہیں بند کر کے کرکٹ کھیلتے دکھائی........
© Roznama Dunya


