
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
حدیث شریف میں آتا ہے: اچھا گمان کرنا (حسنِ ظن رکھنا) بھی عبادت ہے۔ (سنن ابی دائود)، اسی طرح دوسری جگہ فرمایا: خبردار! بدگمانی سے بچو، بدگمانی بری بات ہے (صحیح بخاری)۔ مولانا وحید الدین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''دنیا میں سب سے بڑی خیر مثبت سوچ ہے اور دنیا کا سب سے بڑا شر منفی سوچ ہے‘‘۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ معیشت، مہنگائی، بدانتظامی، اقربا پروری یا پھر دہشت گردی؟ یقینا یہ مسائل بہت منہ زور ہیں اور ان کا تدارک انتہائی ضروری ہے مگر میرے نزدیک ہمارا نمبر ون مسئلہ سیاسی تقسیم ہے جس کے باعث ہم اچھا سوچنا اور اچھا گمان کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ مثبت سوچ کی نفی کرتے ہیں اور منفی سوچ کا پرچار۔ خیر کو شر اور شر کو خیر سمجھنے لگے ہیں۔ ہر واقعے اور حادثے کی اپنی منشا کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔ جو سوٹ کرتا ہے‘ اسے بیان کرتے ہیں اور جو سوٹ نہیں کرتا اس پر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ نجانے کیوں علم و حکمت اور سیاسی فہم و فراست کو بروئے کار نہیں لاتے؟ نجانے کیوں سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے لگتے ہیں؟ نجانے کیوں سیاست اور خدمت کا فرق نہیں سمجھتے؟ دو لوگوں میں سیاسی اختلاف ہونا فطری امر ہے مگر اختلاف کو مخالفت اور دشمنی بنا لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟
کسی بھی صورتِ حال کا تجزیہ کرنا انتہائی پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر کو کسی بیماری کی تشخیص کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں اسی طرح تجزیہ کرنے کے لیے بھی علم، تجربہ، معلومات بھی ناگزیر ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص، جماعت یا گروہ کے پاس یہ تینوں چیزیں ہوں اور وہ پھر بھی حالات کی سنگینی کو بھانپنے سے قاصر رہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے حقائق سے منہ موڑا ہے اور جذباتیت سے کام لیا ہے۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے سیاسی فیصلے کیے ہیں۔ عمران خان نے گولیاں لگنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معلوم تھا کہ ان کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہیں........
© Roznama Dunya


