
سردار میر بلخ شیر مزاری
جب میں دیارِ غیر میں بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا ہوں تو سردار صاحب مرحوم کو لحد میں اتارا جارہا ہوگا۔رب جلیل سے دعاہے کہ اُنہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ سردار صاحب تقریباً نصف صدی تک سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ کچھ عرصہ تک ملک کے نگران وزیرا عظم بھی رہے‘ مگر عام لوگ اُن کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ جس علاقے سے اُن کا تعلق تھا اور جس کی مٹی میں جیئے اور اسی میں سما گئے۔ بلوچ قبائل کے بارے میں بھی تربت سے لے کر بلوچستان کی آخری‘ مشرقی سرحد روجھان تک صدیوں سے بسنے والے بلوچوں کے سماج‘ طرزِ زندگی‘ تاریخ‘ زبان‘ ادب اور ثقافت کے رنگوں سے وہی آشنا ہوسکتے ہیں جنہیں ان کے قریب رہ کر ان کا مشاہدہ کرنے کی فرصت ملی ہو۔ علم اور معاشرے کے طالب علم یہی کرتے ہیں۔ وہ بستیوں‘ وادیوں اور صحرائوں میں ا ن کے ساتھ کئی مہینے‘ بلکہ بعض تو کئی سال گزارتے اور ان کی زبان سیکھتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے ایسے زندہ معاشروں کو دل میں اتار کر اپنے قلم کی زینت بناتے ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ بلوچوں کے متعلق تحقیقی مقالے اور کتب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلوچستان میں حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو جس طرح ماضی میں دبایا گیا‘ ان کی منتخب حکومتوں کو بیک جنبش قلم ختم کرکے وفاقی راج قائم کیا گیا ایسے واقعات کو ملک کے مرکزی مکالموں میں جائز اور قومی مفاد کے عین مطابق قرار دیا گیا۔ سب بلوچوں کو ایک ہی رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ روجھان کے مزاری قبائل‘ اس علاقے کے تمدن اور معاشرے کے بارے میں ایسی ہی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
درویش کا تعلق اسی علاقہ سے ہے۔ بچپن یہیں گزرا۔ اس دھرتی اور رہتل سے رشتہ ابھی تک برقرار ہے۔ ہم پرانی طرز کے لوگ اپنی بنیاد کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔........
© Roznama Dunya


