
نفرت کی آگ کا ایندھن مت بنیں
سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کر دیا ہے۔ خدا کا شکر کہ کوئی بڑا سانحہ پیش نہیں آیا ورنہ انتشار اور بدامنی کو روکنا نہایت مشکل تھا۔ عوام کے جذبات سوکھی لکڑی کی مانند ہوتے ہیں‘ ذرا سی چنگاری بھی شعلوں کا کام کرنے لگتی ہے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی خبر سنتے ہی مجھے وہ دن یاد آ گیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا۔ میں خود بھی اس وقت اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی غرض سے لیاقت باغ راولپنڈی میں موجود تھا۔ محترمہ کی شہادت کا سانحہ میری آنکھوں کے سامنے پیش آیا تھا۔ آج بھی وہ بھیانک شام یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور ہونٹ کپکپانے لگتے ہیں۔ لاشوں، زخمیوں اور چیخ و پکار کے بیچ کھڑے ہو کر ایک قیامتِ صغریٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا کس قدر دشوار اور کٹھن ہوتا ہے‘ یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔ 27 دسمبر 2007ء کو ہم نے بین الاقوامی سطح کی ایک لیڈر کو کھو دیا تھا۔ یہ گھاؤ آج بھی قوم کے دلوں میں تازہ ہے اور بینظیر شہید کی کمی سیاست کے میدان میں ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ آج کے سیاسی منظر نامے پر عمران خان محترمہ سے بھی زیادہ پاپولر لیڈر ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد ان کے سحر میں گرفتار ہے۔ لوگ خان صاحب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ وہ جو بیانیہ بناتے ہیں‘ ان کے فالورز من و عن اسے تسلیم کرتے ہیں۔ وہ ایک نشست پر الیکشن لڑیں یا سات پر‘ جیت ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ لوگ ان کے احتجاجی مظاہروں میں آئیں یا نہ آئیں‘ ان کے جلسے بھرپور ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر خان صاحب کو کچھ ہو جاتا تو عوام کے جذبات کو کنٹرول کرنا کس کے بس کی بات تھی؟ آپ سیاست کا راستہ روک سکتے ہیں مگر عقیدت اور عشق کی راہ میں کوئی حائل نہیں ہو سکتا۔ جو ش ملیح آبادی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
تو آتشِ دوزخ سے ڈراتا ہے انہیں
جو آگ کو پی جاتے ہیں پانی کر کے
پوری........
© Roznama Dunya


