
میرے جیسا کوئی بنیاد میں کام آتا ہے
دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک چیز نہ تو کوئی بم ہے نہ ہی میزائل، بارودی سرنگ ہے نہ کلاشنکوف بلکہ سب سے مہلک چیز غصہ، نفرت اور حسد ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو ہے اور اپنے ذاتی مقاصد کے لیے قومی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کا عمل ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں ہوش مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر ہر پاکستانی ان نشانیوں کا درست تجزیہ کر سکے تو بہت سے مسائل اپنی موت آپ مر جائیں اور سیاسی عدم استحکام کی فضا خودبخود معدوم ہو جائے۔
جب سے معروف صحافی ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا ہے ملک بھر میں اداسی اور غم کا عالم ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہر ہاتھ دعا کے لیے اٹھ رہا ہے۔ کسی بھی ماں کا لعل، بچے کا باپ اور بیوی کا شوہر ایسے دیارِغیر میں بے قصور نہ مارا جائے۔ یہ قتل کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ ارشد شریف نے ملک کیوں چھوڑا اور وہ کینیا کیسے پہنچا؟ کینیا کی پولیس نے بار بار موقف کیوں بدلا؟ اس خونِ ناحق میں اندورنی ہاتھ ملوث تھے یا بیرونی؟ فیصل واوڈا سے ان کی کیا بات ہوئی اور عمران خان اور دیگر نے انہیں باہر بھیجنے میںکیا کردار ادا کیا؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سامنے آنا انتہائی ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حساس سوالات کے جوابات کون دے سکتا ہے؟ کیا ٹھوس اور مصدقہ معلومات کے بغیر کسی کی رائے کی کوئی اہمیت ہے؟ کیا سوشل میڈیا پر بولی جانے والی بھانت بھانت کی زبانیں اور ٹویٹر پر چلائے جانے والے ٹرینڈز فیصلہ کریں گے کہ مقتول کے ساتھ کیا ہوا؟ اس حادثے کی جامع انکوائری ہونی چاہیے جس کے لیے حکومت نے ٹیم تشکیل دے دی ہے اور جوڈیشل کمیشن بننے کے مراحل میں ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کے بھلے کتنے ہی اعتراضات کیوں نہ ہوں........
© Roznama Dunya


