
پھر کیا ہوگا؟
سیاست تو سیاسی اداروں کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کا بنیادی مقصد اقتدار کا آئینی طریقے سے حصول‘ اس کے استحکام اور پُرامن منتقلی کے علاوہ تنازعات کا حل نکالنا ہوتا ہے۔ ادارے‘ جن کی بات میں کررہا ہوں وہ پارلیمان‘ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہیں۔ ادارے قیادت کی صلاحیت‘ تدبر اور قومی مفاد کے جذبے سے فعال ہوتے ہیں۔ ادارے تو صرف قانونی بنیاد فراہم کرتے ہیں‘ اُن کی فعالیت اور غیر فعالیت کے ذمہ داران ان کو چلانے اور ان سے کام لینے والے ہوتے ہیں۔ تنازعات‘ سیاسی کشمکش میں تبدیل ہو جائیں اور کوئی ایسا بحران پیدا ہو جائے کہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو سمجھیں کہ ادارے اپنا کام نہیں کر سکتے۔ ان کی کامیابی اور ناکامی میں سیاسی روایات‘ آئین اور سیاستدانوں کے رویوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ پارلیمان ہو یا کابینہ‘ اپنے طور پر کچھ نہیں۔ وہ وہی کچھ ہیں جو ان کے اراکین ہیں۔ ہمارے ہاں دونوں اہم اداروں کی باگ ڈور چند سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر پارٹی کا سربراہ کہہ دے کہ سب استعفیٰ دے کر پارلیمان سے باہر آ جاؤ تو حکم کی تعمیل میں دیر نہیں لگتی۔ وہ جسے چاہے کسی عہدے سے نوازے اور جس کی رکنیت ختم کردے تو معتوب رکن کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ یہ پارلیمانی نظام کا جبر بھی ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں میں آمرانہ ذہنیت اور سیاسی گدی نشینی کی مضبوط روایت بھی۔ سیاسی لڑائیاں‘ باہمی چپلقش‘ الزام تراشیاں اور ایک دوسرے کو دھول چٹانے‘ اقتدار سے باہر کرنے کے سب جائز اور ناجائز حربے استعمال کرنا اور مخالف جماعت یا جماعتوں کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہماری سیاسی قیادت کی روش رہی ہے۔ آج کے بحران کو میں ماضی کے ایسے ہی واقعات کے تناظر میں دیکھ رہا........
© Roznama Dunya


