
حالات کا جبر
سوالات ہی سوالات ہیں۔ جواب جو آپ کے جی میں آئے گھڑلیں ‘ ہم درست مان لیں گے ۔ ہم حالاتِ حاضرہ اور غیر حاضرہ کی بات کررہے ہیں۔ اس میں سیاست ‘ معاشرت اور معیشت ‘ سب شامل ہیں۔ سب کچھ سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے کہ طاقت‘ اقتدار‘ وسائل اور فرمانِ شاہی کی مہر اُن کے پاس ہے ۔ اصل مسئلہ بھی ہمارا برسوں سے یہی ہے کہ یہ مہر ایک ہاتھ میں ہے یا کئی ہاتھوں میں آتی جاتی رہتی ہے ؟ اقتدار کی مرکزیت جو ریاست کی شناخت ہے ‘ اس وقت بکھر چکی ۔ آئینی اعتبار سے میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہیں ۔ سب وفاقی محکموں کے سربراہ ہیں ‘ مگر کابینہ اتحادیوں میں تقسیم ہے ۔ ہر دھڑے‘ گروہ اورپارٹی نے اپنا حصہ وصول کیا ‘ بلکہ ملکی ضرورت اور معاشی سکت سے تین گنا زیادہ۔ لگتا ہے کہ قوم کی خدمت کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ وزیر یا مشیر بن جائیں ‘حلف اٹھاتے ہی خدمت کا ''مستحسن عمل‘‘ شروع ہو جائے گا۔ ان باریکیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ خدمت کس کی ہو رہی ہے۔ انحصار اتحادیوں پر ہو تو ہماری روایت ہے کہ جماعت کا سربراہ خود اور اس کے نامزد کردہ لوگ کابینہ میں موجود ہوتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کا اصول تو یہ ہے کہ کابینہ اپنے فیصلوں میں خود مختار‘ آزاد اور بااختیار بنے مگر اس کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ کابینہ کی تمام گفتگو‘ مباحث کا تفصیلی ریکارڈ رکھا جاتا ہو گاتاکہ آئندہ کا مورخ دیکھ سکے کہ کس قانونی مسودے ‘ پالیسی اور کسی مسئلے پر حکومتی موقف پر کتنے وزرا اور مشیروں نے حصہ لیا ‘ کیا دلائل دیے ‘ کس قسم کی آرا سامنے آئیں؟ قیاس ہے کہ '' سب ٹھیک ہے ‘ آگے چلیں‘‘ کہہ کر معاملات کو نمٹا دیا جاتا ہے کیونکہ فیصلے تو کہیں اور ہوچکے ہوتے ہیں ۔........
© Roznama Dunya


