
جامعہ کی زمین ہتھیانے کی سازش
جامعات‘ درسگاہیں‘ دانش گاہیں جیسے نام ہیں ویسے ہی قوموں کی نظر میں مقدس شمار ہوتی ہیں۔ یہیں علم بانٹا جاتا ہے‘ نئی نسلیں تیار ہوتی ہیں‘ فکر پنپتی ہے‘ سائنسی تحقیق کا عمل آگے بڑھتا ہے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے بارے میں مکالمے چلتے ہیں۔ ہم جو بھی ہیں اور جس بھی حالت اور حیثیت میں کام کرتے رہے‘ قومی اور معاشی ترقی میں حصہ ضرور ڈالا ہے۔ یہ اور بات کہ کہیں اور بات نہیں بن پاتی اور زوال‘ انحطاط اور جمودکے اسباب اونچی جگہوں پر تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ عزت پامال اور دامن تارتار ہونے کے خطرات ہیں‘ توہمارے دانشور جامعات پر چڑھائی کر دیتے ہیں کہ آخر اتنے عشروں میں کتنے فلاسفر‘ کتنے سائنسدان اور کتنے بڑے مفکرین پیدا کیے ہیں۔ ان سے ہم بحث اس لیے نہیں کر سکتے کہ وہ کمزوروں کی بات اور دلیل سننے کو تیار نہیں اور نہ ہی انہیں کہیں جاکر کبھی مشاہدہ کرنے‘ مل بیٹھنے اور جو کام ہم کر چکے اس کو نظر سے گزارنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس درویش نے ایک سال کم نصف صدی پاکستان کی تین جامعات میں گزاری ہے۔ اس میں دس سال غیرملکی جامعات کے بھی شامل ہیں‘ اور سفر ابھی جاری ہے‘ وقت کا گھوڑا ہمیں کب کہیں جاکر گرائے‘ اس کا علم نہیں۔ ادب سے دلچسپی ہے تو یہ خیال غالبؔ کے ایک شعر سے ہے جو ہمارے دل میں اکثر ابھرتا اور اپنی بے وقعتی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ اتنی توآپ رعایت دیں کہ جہاں اپنی زندگی گزاری ہے اور ابھی گزار رہے ہیں‘اس جگہ کے بارے میں کچھ واقفیت ہے‘ بیشک آپ کو آزادی ہے کہ جانبداری کا طعنہ دے کر ہماری گزارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔ کاش کبھی جامعات کے موضوع پر کوئی مذاکرہ‘ کوئی سنجیدہ گفتگو ہو سکتی۔جامعات نے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کی........
© Roznama Dunya


