
شہر وہ نہیں رہے
بزرگی کے درجے پر تو ہم کبھی نہیں پہنچیں گے مگر اس حصے میں آہستہ آہستہ داخل ہورہے ہیںجب لوگ خواہ مخواہ ایسے القاب سے نواز دیتے ہیں۔ ہم خوش تو ہوتے ہیں لیکن خیال فوراً گزرے دنوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس میں کھوجانے کا بھی ایک اپنا ہی مزہ ہے‘ بس عمر رسیدہ افراد سے پوچھ کر دیکھیں۔ ہم ان میں سے نہیں مگر بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ زندگی کے وہ ایا م جو کالج کی تعلیم سے شروع ہوکر نوکری اور ریٹائرمنٹ کے مراحل سے گزرنے تھے‘ گزار دیے۔ ڈیرہ غازی خان میں چار سال گزارے۔ نہایت ہی صاف ستھرا اور منصوبہ بندی سے بنا ہوا شہر تھا۔پرانے شہر کو دریائے سندھ کھا گیا تو انگریزوں نے موجودہ جگہ پر عین لائل پور کے نقشے پر تعمیر کیا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس شہر کے درمیان میں ٹائون ہال تھا‘ نہایت ہی خوبصورت‘ بالکل کسی بنگلے کی مانند۔ اس سے پانچ کشادہ بازار نکلتے تھے۔ پھر کچھ فاصلے پر ایک گول چوک تھا جس سے تین چار مزید سڑکیں نکالی گئی تھیں۔ شہر بلاکوں میں تقسیم تھا۔ پانی کا اچھا انتظام تھا۔ سول لائنزکا علاقہ جو انگریز نوکر شاہی کے دور میں تعمیر ہوا تھا انتہائی خوبصورت‘ باغوں جیسا علاقہ تھا۔ ہم سالانہ امتحان کی تیاری کے لیے ان باغات کی طرف نکل جاتے۔ دن بھر درختوں کے سائے میں کتابیں پڑھتے‘ مضامین لکھتے اور شام ڈھلتے واپس کالج آ جاتے۔ شہر کے آخری کنارے پر کمپنی باغ تھا۔پنجاب کے تقریباً ہر شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز صاحب بہادروںکے لیے بنائے گئے یہ باغات بہت وسیع اور خوبصورت تھے۔ وہاں پھولوں کی رنگت اور موتیے کی مہک نصف صدی کے بعد بھی سوچ کی وادی کو معطر کردیتی ہے۔
جب انگریزی کالم لکھتے تھے تو ''ایک شہر کی موت‘‘ کے عنوان سے اس شہر کی نوحہ خوانی کی تھی۔ دن کا........
© Roznama Dunya


