
این آر او ٹُو اور لانگ مارچ کی کہانی
وہ شخص جو تجربات کی مٹی میں گندھ کر اُس مقام پر پہنچا ہو کہ جہاں دل وجدان کی زبان میں کلام کرتے ہوں اور وجدان کے کانوں سے سنتے ہوں‘ جہاں روحیں آتشِ شعور میں جل کر پختہ ہوتی ہوں‘ میں پورے وثوق سے دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اس مقام پر پہنچنے والا شخص بھی ہماری سیاست کے اَسرار و رموز کو نہیں سمجھ سکتا۔ بھلاکیسے ممکن ہے کہ روشنی اور تاریکی ایک جگہ قیام کر سکیں؟ غم اور خوشی اکٹھے گھر کی چوکھٹ پار کریں؟ خوشبو اور تعفن کا چولی دامن کا ساتھ ہو؟ اگر یہ سب ناممکنات کے کھیل ہیں تو پھر انصاف اور حق تلفی ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ ظلم اور عدل ایک دوسرے سے کیسے بغل گیر ہو سکتے ہیں؟ اہلِ سیاست اگر یہ بھید عیاں کرنے پر قدرت رکھتے ہیں تو قوم کی رہنمائی بھی فرما دیں‘ بہت سے عقدے کھل جائیں گے اور لاعلمی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
کون جانے ہم بحیثیتِ مجموعی ہی شقی القلب ہیں یا سیاست دانوں کے رویوں نے ہمیں ایسا بنا دیا ہے؟ وجہ کوئی بھی ہو مگر ایک بات طے ہے یہ 'ہنر‘ ہمارے اندر اب مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے۔ ہم ہر فرد، ادارے اور جماعت کو اپنی مرضی کی عینک سے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں جو سوٹ کرتا ہے‘ وہی ہمارے لیے سچ ہوتا ہے اور جو ہمیں سوٹ نہیں کرتا ہم اس سے متفق نہیں ہو پاتے۔ ہم سچ کو سچ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں نہ جھوٹ کو جھوٹ کے آئینے سے دیکھتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم کسی شخصیت کا احترام کرتے ہیں نہ ادارے کا۔ پارلیمنٹ کو معتبر مانتے ہیں نہ ایوانِ عدل کے وقار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ کس کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں؟ بے حسی اور لاپروائی کی اس داستان میں سب برابر کے شریک ہیں۔ حکمران بھی اور عوام بھی! صاحبانِ علم بھی اور علم و تعلم سے عاری بھی! گزرے ایک ہفتے میں بہت اہم فیصلے سامنے آئے اور واقعات رونما ہوئے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان فیصلوں کو سب نے تعصب کی عینک اتارے بغیر دیکھا ہے۔........
© Roznama Dunya


