
یہ تو ہم کرسکتے ہیں
انسان ہوتو وہ کیا نہیں کرسکتا۔ سب کچھ ہمارے دائرہ ٔاختیار میں ہے۔ کون سی صلاحیت ہے جو قدرت نے اپنے وسیع خزانوں سے ہمیں عطا نہیں کی۔ تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت کے علاوہ ترجیحات کو ایک ترتیب کے ساتھ وقت کا پابند بنانے کی بھی۔ بگڑے ہوئے معاشرے‘ بیکار کی سیاست اور حکمرانوں کے کارناموں کا کتنی بار ذکرکریں۔ نیز ہم درویش ان کا بگاڑ ہی کیا سکتے ہیں ؟ مگر خاموش بیٹھنا بھی اپنی ذمہ داری سے انحراف ہے۔ ملک اور معاشرے سے وفا کا تقاضا ہے کہ ظلم‘ ناانصافی اور لوٹ مار کو آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے آواز‘ گرچہ کمزور ہی کیوں نہ ہو‘ جتنی بلند کرسکتے ہیں کرتے رہیں۔ فیصلوں اور ردعمل کی پروا اب نہیں رہی۔ خیر چھوڑیں‘ حکمرانوں کی باتیں‘ ان کے بیانات‘ طرزِعمل اور سچائی کا معیار دیکھ کر کسی اور دنیا میں نکل جانے کو‘ یا پھر اپنی چھوٹی سی دنیا میں کھو جانے کو جی چاہتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ نہ جانے وہ ریاست اور معاشرہ جس کے سنہری تصورات نے ہماری زندگیوں کا احاطہ کیے رکھا‘ وہ کبھی عملی شکل اختیار کرپائے گی یا بس یونہی خواب و خیال کی دنیا میں رہیں گے۔ مزید گہرائی میں جائیں تو دنیا کو سنوارنے یااسے کسی مخصوص نظریے میں رنگنے کا خبط ذہن میں نہیں سوار کرنا چاہیے۔ جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے‘ بس اسے نبھانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب اپنا کام کریں اور خوب سے خوب تر ہو تو یہ اس جانب عملی قدم ہے۔ ہم صرف گفتار کے غازی ہوں‘ عملیت دوسروں کی ذمہ داری پر چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
عام لوگوںکا رویہ کچھ ایسے ہی ہے۔ باتیں ہی باتیں‘ نصیحت ہی نصیحت‘ اور نکتہ چینی کااگر دنیا میں کہیں مقابلہ ہو تو ہم یہ میچ کم و بیش یک طرفہ مقابلے سے جیت جائیں۔ بار ہا دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی ہاتھ میں مائیک........
© Roznama Dunya


